بحرین کے ولی عہد اور وزیراعظم سلمان آل خلیفہ کی ہدایت پرتعلیمی اداروں سے کہاگیا ہے کہ وہ ’’نصاب میں کی جانے والی ایسی تمام تبدیلیوں کو معطل کردیں جومذہب اوراس کے بنیادی ستونوں کے تحفظ کے لیے خلیجی ریاست کی قومی اقدارسے مطابقت نہیں رکھتی ہیں‘‘۔

یہ اعلان مبیّنہ طورپربحرین کے شاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ کے’’اسلامی مذہب کے تحفظ کےعزم‘‘کے عین مطابق ہے کیونکہ کچھ ناقدین نے نصاب میں اسرائیل سے متعلق مضامین کی شمولیت اورمتنازع اسرائیلی فلسطینی علاقوں کے نقشوں میں تبدیلیوں پراعتراضات کا اظہارکیا تھا۔

بی بی سی عربی نے بدھ کے روزخبردی تھی کہ پرائمری جماعتوں میں پڑھائے جانے والے ترمیم شدہ مضامین میں خلیجی ریاست اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کومعمول پر لانے کے بارے میں ایک سبق شامل کیا گیا ہے اورنصاب میں شامل یہودکے بارے میں ایک سبق حذف کردیا گیا ہے۔

بحرین کے مختلف مبلغین، علماء اوراسکالروں نے وزارتِ تعلیم سے ان تبدیلیوں پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر ولی عہد کی جانب سے اعلیٰ سطح پرحکم جاری کیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے آن لائن جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جناب ولی عہد نے وزیر تعلیم کوحکم دیا ہے کہ وہ قومی لائحہ عمل کے منشور اورآئین کے مطابق تعلیمی نصاب میں اسلامی تعلیمات پرعمل درآمد کو یقینی بنائیں۔

بیان میں مزید کہاگیا ہے کہ ولی عہد نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دین اسلام ناقابلِ تسخیر ہے اور اس کا ہر قیمت پراحترام اورتحفظ کیا جانا چاہیے۔

بحرین کی سرکاری خبررساں ایجنسی (بی این اے) نے بدھ کوخبردی تھی کہ وزیر تعلیم ڈاکٹرمحمد جمعہ نے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اوراس کو ’’تمام نصاب کا جامع جائزہ لینے‘‘کی ذمے داری سونپی ہے۔

اس پینل سے کہاگیا ہے کہ’’وہ نصاب میں تبدیلیوں کا جائزہ لے اوران امورسے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے جو "قومی اور مذہبی استحکام کو متاثرکریں گے یا کرسکتے ہیں‘‘۔

اس پینل کو نظرثانی کے عمل میں نصاب میں شامل کی گئی کتب کو واپس لینے کی بھی اجازت دی گئی ہے اوراسے کہا گیا ہے کہ وہ تمام درست اور ضروری ترامیم کے بعد ان کتب کو دوبارہ جائزے کے لیے پیش کرے تاکہ ان کی مکمل تصدیق کے بعد شاملِ نصاب کیا جاسکے۔

بحرین نے سنہ 2020ء میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر معاہدۂ ابراہیم کے تحت اسرائیل سےمعمول کے تعلقات استوار کیے تھے۔امریکامیں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے نے جنوری 2023 میں اعلان کیا تھا کہ ملک بھر کے پرائمری اورثانوی اسکولوں میں تاریخ کی کلاسوں میں ہولوکاسٹ کے بارے میں پڑھایا جائے گا۔بعد میں بحرین نے بھی ہولوکاسٹ کو تاریخ کے نصاب میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اگرچہ بحرین کی وزارتِ تعلیم نے اس ضمن میں کوئی باضابطہ بیان یاحکم جاری نہیں کیا تھا لیکن کچھ لوگوں نے اس اقدام کو معاہدۂ ابراہیم پرپیش رفت کا فطری شاخسانہ قراردیا تھا۔یہاں تک کہ بعض لوگوں نےان مضامین کی نصاب میں شمولیت کی ضرورت پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے