تحریر: سیف العادل احرار

سعودی عرب اور ایران نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے چین کی ثالثی سے تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دیا ہے۔ جس کے مطابق دونوں ممالک دو ماہ میں تہران اور ریاض میں اپنے سفارت خانے کھولیں گے اور مزید پیشرفت کے لیے بات چیت شروع کریں گے۔
یہ پیشرفت دنیا اور خطے کی سطح پر ایک بڑی تبدیلی ہے، سعودی عرب اور ایران کے تعلقات ایرانی انقلاب کے بعد مختلف مواقع پر کشیدہ رہے ہیں لیکن ایران کی جانب سے عرب انقلاب کے بعد یمن میں حوثی ملیشیا کی حمایت نے ان تعلقات کو مزید خراب کر دیا ہے۔
سرد جنگ کے آغاز اور پھر ایرانی انقلاب کے بعد سعودی عرب امریکہ کا دوست رہا ہے، خطے کے سیاسی حالات کے پیش نظر سعودی عرب سلامتی کے معاملے میں مکمل طور پر امریکہ پر انحصار کرتا تھا جب کہ اس وقت ایران نے مستقل طور پر اپنا اثر و رسوخ یمن، شام، لبنان، فلسطین اور اردن تک پھیلا دیا۔
چونکہ بین الاقوامی نظام بدل رہا ہے، چین سمجھتا ہے کہ اس کو اوپر اٹھنے کے لیے خطے میں امریکا کا اثر و رسوخ بتدریج کم کرنا ہوگا اور امریکا کی خارجہ پالیسی سے پیدا ہونے والے مسائل کو آہستہ آہستہ حل کرنا چاہیے۔
مشرق وسطیٰ کے اہم مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعہ تھا جس کو حل کرنے کے لئے چین نے پہلا قدم اٹھایا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان یہ کوششیں اس سے قبل عراق اور عمان کی جانب سے بھی کی جا چکی ہیں لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
فی الحال یہ تعلقات تھوڑی پیشرفت کر سکتے ہیں کیونکہ چین جیسی مضبوط طاقت ان میں ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے ایران اور سعودی عرب نے تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کیا ہے کیونکہ وہ ضمانت کے طور پر کسی حد تک اپنے ثالث پر بھروسہ کرتے ہیں۔
چین کی ثالثی سے سعودی اور ایرانی تعلقات کی بحالی مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے بڑا پیغام ہے۔ یہ اس دعوے کا بڑا ثبوت ہے کہ امریکہ کے پاس اب بین الاقوامی نظام میں ویٹو کا اختیار نہیں ہے۔
چین ایک ایسے وقت میں ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے جب امریکہ یوکرین میں مصروف ہے اور افغانستان میں شکست کھا چکا ہے۔ سعودی اور چینی جانتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ سے امریکہ کو سعودی تیل اور او پی ای سی  کی ضرورت ہے اس لئے وہ سعودی عرب پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔
چین تجارت اور سفارت کاری کے ذریعے مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے نئے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔
ایران اور سعودی عرب نے سات سال میں مذاکرات نہیں کئے ہیں لیکن اب وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، یہ ان کے پڑوسی ممالک کے لئے اچھی خبر ہے کیونکہ ان مذاکرات کے تین ہمسایہ ممالک پر براہ راست اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن میں یمن، لبنان اور شام شامل ہیں، یمن میں سعودی عرب ملک بدر حکمران کا حامی ہے جب کہ ایران مسلط حوثیوں کی حمایت کررہا ہے، اب ان کے درمیان مذاکرات سے یمن میں بھی امن قائم ہوسکتا ہے اور طویل جنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے، لبنان میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے کئی ماہ سے صدر کے انتخاب کا عمل تعطل کا شکار ہے، اب توقع ہے کہ سعودی عرب اور ایران ایک ایسی پارلیمنٹ منتخب کرنے میں کردار اد اکریں گے جس پر سب متفق ہوسکتے ہیں، شام کا بھی کہنا ہے کہ ان دو ممالک کے درمیان تنازعہ کا خاتمہ ہماری جنگ کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے، کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے شام عرب ممالک سے الگ ہوچکا ہے اور اب اس کو حامی ممالک کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سعودی عرب اور ایران اپنے سفارت خانے کھول دیں اور یہ اقدامات خطے میں نئی پیشرفت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب امارت اسلامیہ نے بھی ان دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خیرمقدم کیا ہے، وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ مثبت اقدام خطے میں امن و استحکام کے لئے اہم ہے، بیان میں چین کا بھی شکریہ اد اکیا گیا جس نے خطے میں استحکام کے لئے سعودی اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے کردار ادا کیا۔
ادھر مبصرین کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی خطے کے لئے اچھا پیغام ہے، دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، سعودی عرب اور ایران آپس میں لڑتے رہیں گے تو اس سے تیسری قوت کو فائدہ ہوگا، توقع ہے کہ دونوں اسلامی ممالک کے درمیان چین میں ہونے والا معاہدہ دیرپا ہو گا اور ان کے درمیان اختلافی معاملات مسلمہ سفارتی انداز سے ہی حل ہوں گے۔ ایران سعودی تعلقات کی بحالی سے مسلم ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں گے۔

مختلف حلقوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں اسلامی ممالک کے درمیان معمول کے حالات کا بحال ہونا امت مسلمہ کے لیے نیک شگون ہے۔ دونوں موثرمسلم ریاستوں کو باہمی کشیدگی کی بجائے اتفاق و اتحاد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سے مغربی دنیا پر انحصار کم ہوگا۔ چین کی ثالثی میں شروع ہونے والے مذاکرات اور اس کی کامیابی سے یہ تاثر مضبوط ہوگیا ہے کہ سعودی عرب امریکی اثر سے نکل کر چین کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا چکا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ پوری دنیا میں امریکی اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے۔

دوسری جانب پیوٹن نے ترکی اور شام میں مصالحت کیلئے کوششیں تیز کردیں، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے شامی ہم منصب بشارالاسد کے درمیان ماسکو میں مذاکرات کا آغاز ہوگیا، کریملن نے انقرہ اور دمشق کے درمیان مصالحت کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ سرکاری ٹی وی پر دونوں رہنمائوں کی ملاقات کے براہ راست دکھائے جانے والے مناظر میں پیوٹن نے بشارالاسد کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ وہ شامی صدر کو ماسکو میں دیکھ کر انتہائی خوش ہیں، انہوں نے اپنی دعوت قبول کرنے پر بشارالاسد کا شکریہ بھی ادا کیا۔ روسی صدر نے مزید کہا کہ ہم مستقل طور پر رابطے میں ہیں اور ہمارے تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں، خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہوکر عالمی نظام میں ایک نئی تبدیلی آرہی ہے جوکہ کمزور ممالک کے لئے خوش آئند امر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے