تحریر:  سیدعبدالرزاق
جولائی۱۵  کو قاتل اور خونخوار ملیشیا کاسربراہ رشید دوستم عبداللہ اور اشرف غنی کے سودے بازی کی نتیجہ میں فیلڈ مارشل کامستحق قرار پایا۔ اس کااعلان باقاعدہ ایک تقریب میں کیاگیا-اس تقریب میں قتل کے نت نئی طریقوں کے موجد رشید دوستم نے کہا کہ میرااس عہدہ پر آنا قوم کے لیے نیک شگونی ہے اور جلد ہی ملت اس کے ثمرات دیکھے گی۔
رشیددوستم جس طرح ناروا قتل، اقوامِ متحدہ اور بشری حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی میں شہرت رکھتا ہے اسی طرح اپنی قوم میں بھی وہ کسی بھی طرح کے انسانی اقدار کاحامل نہیں رہا ہے -اس کی تاریخ سراسر کرپشن،بدعنوانی، عوام کے خون سے ہولی اور فسادات سے بھری پڑی ہے-اس بات کے گواہ خود اسی کو اس عہدہ سے سرفراز کرنے والے کابل انتظامیہ کے دونوں سربراہ بھی ہیں- گذشتہ پانچ سالوں میں یکے بعد دیگرے دونوں سربراہوں نے رشیددوستم کو قاتل، خائن اور غدار قرار دیاتھا اور عوام کو جھوٹے وعدے بھی کرائے تھے کہ جلد ہی اس سے چھٹکارا دینگے- لیکن جھوٹ،فریب ،مکر اور کہہ مکرنیوں کے ان بادشاہوں نے سب کچھ بھلا کر یہ عہدہ انہیں دے دیا- ساتھ میں یہ بھی اظہار کیا کہ یہ فیصلہ ملک وملت کی بہی خواہی کے لیے ہوگا-
دوستم اپنی بدعنوانیوں کے ساتھ اس بات میں بھی کافی شہرت رکھتاہے کہ وہ ہر موقع پر غلامی کاکوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا- امریکی آقاؤوں پر تو اس حد تک قربان ہوچکے تھے کہ اسے شہید قرار دے دیاتھا اور اپنی وفاداری کی وجہ سے ان پر بھی بھرپور اعتماد رکھتاتھا چنانچہ اسی بنیاد پر وہ بار بار یہ کہتاتھا کہ مجھے سپریم کمانڈر بنادیاجائے تو طالبان کا چھ مہینے میں خاتمہ کردونگا-
بہر صورت اسے عہدہ ملا اور وہ سپریم کمانڈر سے بھی نام کی حد تک بڑا کمانڈر بن گیا- اب تقریب میں کی ہوئی اس کی باتوں کے مطابق ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ ملت امن وآشتی سے ہمکنار ہوتی اور اس کاآنا قوم کے لیے سکون کا باعث ہوتا- لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ مارشل کے آنے کے ساتھ ہی ملت پر بموں اور گولیوں کی پوجھاڑ شروع ہوگئی- مختلف جگہوں پر لوٹ مار، قتل وغارت اور ہر طرح کے فسادات شروع ہوگئے- ان میں دو بہت ہی دلخراش واقعے پیش آئے-۱۹ جولائی کو صوبہ بلخ میں ظالم فوجیوں نے ایک گھر پر بے دریغ بمباری کی- جس میں معصوم بچوں اور خواتین سمیت دس سے زیادہ بے گناہ افراد مارے گئے جو سب کے سب معصوم اور ہر طرح کے الزامات سے بری تھے- مقامی لوگوں کاکہناہے کہ اس علاقہ میں کوئی حملہ یا جنگی صورتحال بھی نہیں تھی۔
اس واقعہ کے زخم ابھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ ۲۰ جولائی کو صوبہ بغلان کے پل خمری کے علاقہ میں ان درندہ صفت فوجیوں نے بمباری کرتے ہوئے عورتوں اور بچے کو آگ کالقمہ بنا دیا- ان کے علاوہ چار خواتین شدید زخمی ہوئیں-
ظلم ووحشت کے یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ دوستم کا چھ ماہ میں طالبان کے خاتمے کا اعلان درحقیقت اپنے عوام کے خلاف اعلان جنگ تھا اور اسی کے لیے اس کی چالیس سالہ تگ ودو ہوتی رہی- یہی اس کے عہدے کے اثرات ہیں اور یہی ملت کو ملنے والے ثمرات ہیں- یہ تو ایک نمونہ ہے جو جلد ہی وجود میں آیا آگے اس کے ارادے ہیں؟ وہ تو معلوم نہیں البتہ اسے یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے آقاؤوں کی طرح اسے پیٹھ پھیر کر بھاگناہوگا ورنہ تو انہیں ملت کے ہاتھوں اپنے کیے کاخمیازہ بھگتنا ہوگا ان شاءاللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے