چلے آؤ سیدھے………مدینہ مدینہ

اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں… آج کی مجلس شاید مختصر ہو گی… ’’قربانی شریف‘‘ کا زمانہ قریب ہے… اللہ کرے ’’وباء‘‘ کی آڑ میں اس عظیم عمل میں کوئی رکاوٹ نہ آئے…ایک بات یاد دِلانے کی سخت ضرورت ہے… خود کو بھی… اور دوسرے مسلمانوں کو بھی کہ… ہمارے دلوں میں… ’’قربانی ‘‘ کی روحانی شان کم نہ ہو… بلکہ ہر آئےدن، ہر اگلے سال … ہم ’’قربانی‘‘ میں ترقی کی کوشش کریں… اور اس مبارک عمل کو رسم یا بوجھ نہ سمجھیں… بہت سے فتنے سرگرم ہیں… کوئی ’’قربانی ‘‘ سے باقاعدہ روکتا ہے…کہتے ہیں کہ یہی پیسے کسی غریب کی مدد میں خرچ کردیں… یہ لوگ بہت ظالم ہیں… یہ عقل کے دشمن اور دل کے اندھے ہیں… ان کو اللہ تعالیٰ کی ’’محبت‘‘ سے کوئی غرض نہیں… کوئی تعلق نہیں… عید الاضحیٰ کے دن ’’محبت‘‘ کا بازار سجتا ہے… اللہ تعالیٰ کی ’’محبت ‘‘ پانے کے لئے … عاشقوں نے کیا کیا نہیں کیا… مگر ان کی رحمت دیکھئے کہ عید کے دن جانور قربان کرنے سے… اس محبت کے لبالب بھرے جام ملتے ہیں… عید کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی سے زیادہ محبوب عمل کوئی نہیں ہے… کوئی نہیں… جن کے دِل زندہ ہیں وہ اس راز کو سمجھ گئے…وہ سارا سال ایک چرواہے کی طرح جانور کو پالتے ہیں… اس جانور کو اپنے بچوں کی طرح کھلاتے پلاتے ہیں… اور گھڑیاں گن گن کر …عید کے دن کا اِنتظار کرتے ہیں کہ… کب خون کا قطرہ زمین پر گرے گا اور ہمیں… اپنے مولیٰ اور مالک کی ’’محبت‘‘ ملے گی… بڑے بڑے فریج اور فریزر آ گئے انہوں نے بھی… عشق کے بازار کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی… اب بہت سی توجہ گوشت کی طرف ہوتی ہے… حصہ داروں میں سے بعض اگر گوشت کی نیت کریں تو کسی کی قربانی بھی قبول نہیں ہوتی… گوشت تو اللہ تعالیٰ پورا سال کھلاتے ہیں… ’’محبت‘‘ پانے کی مستی میں کس کو گوشت یاد رہتا ہے؟ مگر شیطان آرام سے بیٹھنے والا نہیں… وہ اس محبوب عمل پر ڈاکہ ڈالتا ہے… مسلمانو! اخلاص…اخلاص اور اِخلاص… یا اللہ! صرف آپ کے لئے… آپ کی رضا کے لئے… آپ کی خوشی کے لئے… زبان پر تکبیر، ہاتھ میں چھری اور آنکھوں میں آنسو… حضرت ہابیل شہید جیسا تقویٰ اور جذبہ… حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام والی فکر اور نیت… وہاں تو بیٹا ذبح ہو رہا تھا… اور حضرت آقا محمد مدنی ﷺ والا والہانہ اَنداز… کبھی حضرت آقا مدنی ﷺ کی قربانی کے واقعات تو پڑھیں… کس طرح سے قربانی فرماتے… اپنی طرف سے… اپنے اہل و عیال کی طرف سے… اور اپنی اُمت کے غریب مسلمانوں کی طرف سے… اشارہ دیا کہ میرا کوئی اُمتی اس مبارک عمل سے محروم نہ رہ جائے… عشق و محبت کے اس بازار میں کوئی اُمتی خالی ہاتھ نہ رہے… اُمت مسلمہ کے غریبوں کو مبارک… صد مبارک کہ اُن کی قربانی… حضرت آقا مدنی ﷺ نے پہلے ہی ادا فرما دی ہے…اور وہ یقیناً قبول بھی ہو چکی ہے… موبائل اور سوشل میڈیا کا فتنہ جوں جوں بڑھتا جا رہا ہے… مسلمانوں کے ’’روحانی جذبات‘‘ کمزور ہوتے جا رہے ہیں… اب بہت سے لوگ قربانی کرتے نہیں… صرف بھگتاتے ہیں… بس گلے سے ذِمہ داری اُتر جائے… ارے بابا … مال بھی اللہ تعالیٰ نے دیا… جانور بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے… ہم نے کون سا اپنے یا اپنی اولاد کے گلے پر چھری چلانی ہے… اتنی آسانی فرما دی اللہ تعالیٰ نے… پھر بھی اگر ہم ’’محبت‘‘ کے اس بازار سے… محبت کے لازوال جام نہ بھر سکے تو کس قدر محرومی کی بات ہے…مہربانی کریں… ایک بار قربانی کے فضائل والی احادیث دوبارہ پڑھ لیں… ایمان کو ہمیشہ تجدید اور تازگی کی ضرورت ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت پانے کا بہت بڑا موقع آنے والا ہے…معلوم نہیں یہ ہماری زندگی کا آخری موقع ہے… یا مزید مواقع بھی ملیں گے… ہمیں چاہیے کہ اس بار قربانی… مکمل اِیمانی، روحانی جذبے سے کریں… اس میں ایک ایک سنت اور محبت کی ایک ایک ادا کو تازہ کریں… کچھ نوٹ توڑنے پڑیں تو توڑ دیں… کچھ بیچنا پڑے تو بیچ دیں… مکمل محبت اور دلچسپی سے جانور خریدیں… ان کی خدمت کریں… اُن کا اکرام کریں… اور ابھی سے عید کا انتظار کرنا شروع کر دیں… ایک ایک دن گن کر… ایک ایک رات گن کر…قربانی ذبح کرنے کی خود مشق کریں تاکہ…یہ سنت اپنے ہاتھوں سے اَدا ہو… یہ ممکن نہیں تو اچھے دیندار قصائی ابھی سے رابطے میں لیں… چھریاں اچھی اور تیز خریدیں تاکہ…جانور کو تکلیف نہ ہو… یہ سب جانور جنت میں جائیںگے… جنت کی مخلوق کو تکلیف دینا بہت بُری بات ہے… ہزار دو ہزار بچانے کے لئے اَناڑی قصائیوں کو… ان بابرکت مویشیوں پر مسلط نہ کریں… خود مسلمان بنیں، مرد بنیں … ذبح کرنے کا طریقہ سیکھیں…

’’افضل ایام الدنیا ‘‘ کتاب کا مطالعہ کریں… اس میں قربانی کے بارے میں چالیس اَحادیثِ مبارکہ موجود ہیں… اور بھی بہت سی کام کی باتیں… آہ ! اس سال ’’حج شریف‘‘ کا معاملہ دِل کو زخمی کئے ہوئے ہے… کہیں ’’قربانی‘‘ کی ناقدری بھی ہمیں نہ لے ڈوبے…

دیکھیں حضور اقدس ﷺ کیا ارشاد فرما رہے ہیں…

فرمایا :آدمی کا کوئی عمل قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے ( یعنی جانور ذبح کرنے) سے زیادہ محبوب نہیں ہے… قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا… اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقام پا لیتا ہے… اس لئے خوب خوشدلی سے قربانی کیا کرو (الترمذی)

قرب کے راستے ، قرب کی منزلیں

قرب کی چاشنی ، قرب کی لذتیں

اگر چاہتے ہو چلے آؤ سیدھے

مدینہ مدینہ ، مدینہ مدینہ

دو اہم لمحے

دو لمحے بہت اہم ہیں… ایک جب کوئی ’’روح‘‘ زمین پر ظاہر ہو… اور دوسرا جب کوئی روح اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کسی جسم سے نکلتی ہے… پہلا لمحہ بچے کی ولادت کے وقت ہوتا ہے… ایک نئی روح زمین پر ظاہر ہوتی ہے… یہ روح اگرچہ ماں کے پیٹ میں ہی بچے میں منتقل ہو جاتی ہے… مگر اس کا ظہور… وِلادت کے وقت ہوتا ہے… یہ بڑا خاص لمحہ ہوتا ہے… اس وقت دُعائیں بہت قبول ہوتی ہیں… اور اس وقت بڑے بڑے فیصلے زمین پر اُترتے ہیں… دوسرا وہ لمحہ جب کوئی روح… ایمان اور دِین کی نسبت سے… کسی جسم سے جدا ہوتی ہے… مثلاً وہ لمحات جب… کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہو رہا ہوتا ہے… یا کوئی ظالم… مظلوم مسلمانوں کو قتل کر رہا ہوتا ہے…یا جب… قربانی اور صدقے کے جانور… اللہ تعالیٰ کی راہ میں ذبح ہو رہے ہوتے ہیں… روحوں کی پرواز کا یہ وقت بڑا خاص ہوتا ہے… اس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں… یہ موضوع کافی تفصیل طلب ہے… آج تفصیل کا ارادہ نہیں بس اتنا ہی اِشارہ کافی ہے… عید کا دن آنے والا ہے… ہم میں سے جو ایمان کے ساتھ… عید کے دن موجود ہوں گے وہ یہ لمحہ دیکھیں گے… اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے… ذبح ہونے کا لمحہ… روح کے جسم سے جدا ہونے کا لمحہ… کوشش کریں کہ… اس لمحہ آپ روحوں کے مالک… اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف متوجہ ہوں… اس وقت موبائل اور تصویر بازی کو بھول جائیں… اپنے قیمتی لمحے کو حاصل کریں…آخر ایک لمحہ وہ بھی تو آئے گا جب ہماری روح بھی… ہمارے جسم سے جدا ہو گی… اپنے اُس لمحے کے لئے… اِس قربانی والے لمحے کی قدر کر لیں… غفلت، فوٹو بازی، ویڈیو سازی اور گوشت کی فکر نہ کریں… سب کو بھول کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں… خوب آہ و زاری سے دُعاء کریں… اپنی موت کو یاد کریں…خوش نصیب جانور… اس لمحے کیا سے کیا بن گئے… کل تک وہ گائے، بیل اور بکرا دنبہ تھے… مگر انہوں نے گردن پیش کی… ذبح ہوئے… ایک اللہ کے لئے… اللہ تعالیٰ کے نام پر تو اب ان کا نام … ’’قربانی ‘‘ پڑ گیا… اللہ تعالیٰ کے’’قرب‘‘ کا ذریعہ اور وسیلہ… دیکھیں ایک جانور کہاں سے کہاں پہنچ گیا… اب اس کی قدرو قیمت بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک پور انظام سرگرم ہو گیا… اس جانور کے جسم پر لاکھوں کروڑوں بال ہوتے ہیں… یہ سب ریکارڈ میں آ گئے… قربانی کرنے والے کو ان کے برابر نیکیاں عطاء ہوئیں… اور حکم فرما دیا گیا کہ… ان بالوں سمیت یہ جانور قیامت کے دن زندہ ہو گا… اور قربانی کرنے والے کے کام آئے گا… حتی کہ اس کے وہ اعضاء جو کسی کام نہ آئے… کھر، سینگ وغیرہ… وہ بھی کسی مخفی نظام میں محفوظ رہیں گے… اور اس جانور کو واپس لوٹائے جائیں گے…

اندازہ لگائیں … کیسا عظیم محبت اور اکرام والا لمحہ ہوتا ہے… بس دومنٹ کا یہ وقت… قیمتی بنا لیں… اپنی قربانی پر حاضر رہیں… بار بار اپنی نیت کو تازہ کریں کہ یا اللہ یہ سب کچھ آپ نے دیا… اور اب آپ ہی کے لئے قربان ہے… مالک الملک کی محبت کا فائدہ اُٹھا کر… اس وقت اپنے سارے گناہ بخشوا لیں… اپنی اصل اور عارضی حاجات پوری کرا لیں… اصل حاجات موت کی سختی سے حفاظت… عذابِ قبر اور جہنم سے حفاظت… قیامت کے ھول سے حفاظت وغیرہ اور عارضی حاجات… اپنی دنیا کے مسائل… اور ہاں عافیت مانگنا نہ بھولیں… ہم دنیا و آخرت میں… عافیت کے بہت محتاج ہیں… بے حد محتاج …

بسا دے دلوں میں مدینہ مدینہ

رَچا دے لہو میں مدینہ مدینہ

محبت میں دنیا کے اَندھے پڑے ہیں

دِکھا دے دلوں کو مدینہ مدینہ

ایک اَہم نکتہ

بہت سے لوگ… جہاد اور عافیت کو ایک دوسرے کا مقابل سمجھتے ہیں … ان کا خیال ہے عافیت مل جائے تو جہاد سے جان چھوٹ جائے گی… یعنی ’’عافیت‘ کا مطلب ہوا… جہاد سے دوری… استغفر اللہ ، استغفر اللہ … یہاں پہلی بات یہ سمجھیں کہ حضورِ اقدس ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر… روتے ہوئے… آنسو مبارک بہاتے ہوئے اپنی امت کو تلقین فرمائی کہ… اللہ تعالیٰ سے عفو ( یعنی معافی) اور عافیت مانگو… حضرات محدثینِ کرام لکھتے ہیں کہ… آپ ﷺ کو دِکھایا گیا کہ آپ کے بعد آپ کی امت کیسے کیسے فتنوں کا شکار ہو جائے گی… کس طرح سے دنیا کی محبت میں پھنس جائے گی… اور مال و عہدے کی حرص میں کس قدر مبتلا ہو جائے گی تو اس پر آپ ﷺ غم سے رو دئیے… اور آپ نے اس کا علاج یہ تجویز فرمایا کہ… اللہ تعالیٰ سے کثرت کے ساتھ معافی… اور عافیت مانگا کرو…

’’عافیت‘‘ دراصل وہ طاقتور ڈھال… اور حفاظتی لباس ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار فرمایا ہے…اور جس بندے کو یہ لباس مل جائے وہ ہر طرح کے فتنوں ، مصائب اور تکلیفوں سے محفوظ رہتا ہے…دین کے فتنے ہوں یا دنیا کے فتنے… آخرت کی مصیبت ہو یا دنیا کی مصیبت… ان سب سے بچاؤ کا لباس ہے ’’عافیت‘‘ …اسی لئے عافیت کو… ’’دفاعِ الٰہی‘‘ کہا جاتا ہے… جہاد سے محرومی بھی ایک عذاب اور فتنہ ہے… دین کے ایک فرض سے محرومی … اس لئے مسلمانوں کے لئے جہاد بہت بڑی خیر اور عافیت ہے… اور وہ حدیث جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ… دشمنوں سے ٹکرانے کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو… وہ حدیث آپ ﷺ نے جہاد کے موقع پر ہی ارشاد فرمائی… دشمن بالکل سامنے تھے… جنگ تیار تھی… آپ ﷺ نے اپنے لشکر کو وعظ فرمایا … اور اس میں یہ تلقین فرمائی… اور ساتھ یہ بھی فرمایا گیا کہ… اگر مقابلہ ہو جائے تو ڈٹ کر لڑو… بے شک جنت تلواروں کے سائے تلے ہے… اب آپ مقصد سمجھ گئے ہوں گے کہ… جہاد میں عافیت کیا ہے؟ وہ یہ کہ دشمن غالب نہ آئیں… مجاہدین زخمی اور قیدی نہ بنیں… اور مسلمانوں کو ہزیمت نہ ملے… اللہ تعالیٰ تو اس پر بھی قادر ہیں کہ… عافیت کی دعاء کی برکت سے دشمنوں پر ایسا رُعب طاری فرما دیں کہ… وہ لڑ ہی نہ سکیں اور ہتھیار ڈال دیں… قسطنطنیہ کی دوسری فتح کی حدیث میں ایسا ہی منظر بیان ہوا ہے کہ… قربِ قیامت میں مسلمان قسطنطنیہ پر حملہ کریں گے… وہ تکبیر کا نعرہ بلند کریں گے تو دشمن ان کے رُعب تلے دَب جائے گا اور تین نعروں سے… بغیر جنگ کے پورا علاقہ فتح ہو جائے گا… مجاہد کو بغیر تکلیف کے فتح ملے یا شہادت… یہ دونوں عافیت کی صورتیں ہیں… آج ہمارا دین بھی ’’عافیت‘‘ سے محروم ہے…مسلمان دینی فرائض سے محروم ہوتے جا رہے ہیں… دین سے محرومی بہت بڑی مصیبت ہے اور بہت بڑا وَبال… قربانی کا معاملہ دیکھ لیجئے… ایک وہ وقت تھا کہ… مسلمان پورا سال قربانی کی تیاری کرتے تھے اور قربانی کا انتظار… اور آج یہ وقت ہے کہ… ’’قربانی‘‘ جیسے حکم اور قربانی جیسی نعمت میں بھی… پہلے جیسا جوش، خوشی اور وَلولہ نہیں رہا…ہم سب اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگیں… دُنیا کی عافیت اور آخرت کی عافیت… اور اس سال مکمل اِخلاص اور مکمل خوش دِلی سے ’’قربانی ‘‘ کے عظیم اور مبارک عمل کا فیض حاصل کریں…

معاف کر دے ، معاف کر دے اے مِرے ربِّ غَفُور

عافیت دے ، عافیت دے یا عَفُوُّ یا غَفُور

صدا ہے میرے رب جو دیتا ہے تجھ کو

غلامِ مدینہ مدینہ مدینہ

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علیٰ سیدنا محمد وعلی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے