تحقیق: قاری محمد یونس راشد
افغانستان میں امریکی جنگ کی ناکامی اور اس ملک سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں بش کے بعد بارک اوباما حکومت کے دونوں ادوار میں ارادہ موجود تھا اور اس حوالے سے سینئر امریکی حکام ہمیشہ اظہار خیال کرتے تھے، تاہم اوباما نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کن اقدام نہیں کیا اور صرف فوج کی تعداد کو کم کرنے کا وعدہ پورا کیا، اوباما افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے لئے امارت اسلامیہ کے ساتھ کیوں بات چیت نہیں کرسکے، اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن میری رائے یہ ہے کہ اوباما انتظامیہ اور کانگریس میں جنگ پسند حکام کے اثر و رسوخ نے امریکی جرنیلوں کو یہ موقع فراہم کیا تھا کہ وہ اوباما اور ان کے ہم نظر حکام کے خیالات کو چیلنج کریں۔
اوبامہ انتظامیہ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ ٹویٹر پر افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی پر تنقید کرتے تھے اور وہاں خرچ ہونے والی رقم کو امریکی عوام کی دولت کا ضیاع قرار دیتے تھے اور اصرار کرتے تھے کہ کسی دوسرے ملک میں سڑکیں اور کلینک بنانے کے بجائے ہمیں چاہئے کہ ملک کی تعمیر اور یہاں سماجی خدمات فراہم کریں۔
ٹرمپ کے موقف کی تبدیلی اور نئی حکمت عملی:
ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے 20 جنوری 2017 میں امریکہ کے 45 ویں صدر کی حیثیت سے حلف لیا تھا، وہ شروع سے یہ کوشش کررہے تھے کہ افغانستان کی جنگ سے امریکی فوج نکالیں اور وہاں پر بے مقصد جنگ کی وجہ سے اربوں ڈالر کے نقصان اور اخراجات بند کر دیں، چونکہ ٹرمپ کے نزدیک افغانستان کی جنگ غیر ضروری اور بے مقصد جنگ تھی جس کی کامیابی کے چانسز بہت کم تھے، اس لئے اس جنگ میں فوج اور پیسوں کو ضائع کرنے کا سلسلہ بند کرنا چاہئے تھا، لیکن جارحیت پسند امریکی جرنیلوں اور ریپبلکن سینیٹر جان مکین جیسے متعصب حکام نے ٹرمپ کو باور کرایا کہ افغان جنگ کچھ مشکلات اور محدود اختیارات کی وجہ نہیں جیت سکتے۔ اگر امریکی جرنیلوں کو فوجی کارروائیوں کے لئے لامحدود اختیارات اور آلات فراہم کردیئے جائیں تو امریکی فوج یقینی طور پر جنگ جیت جائے گی، اور اگر جنگ جیتنے کی صورت امریکہ افغانستان میں 3 بلین ڈالر معدنیات سے وصول کر کے اپنے تمام مالی نقصانات کی تلافی کر سکے گا، ٹرمپ نے ایک مالدار آدمی کی حیثیت سے جو اخراجات سے نفرت کرتا ہے اور منافع کے جنون میں مبتلا ہے، بند آنکھوں سے ان کی بات مان کر بش اور اوباما کی ناکام جنگی پالیسیوں کو برقرار رکھتے ہوئے 22 اگست 2017 میں افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے لئے اپنی حکمت عملی کا اعلان کیا۔اس حکمت عملی کے اہم نکات یہ تھے کہ ہم افغانستان کی جنگ ضرور جیت جائیں گے اور وہاں ہماری موجودگی صورتحال پر منحصر ہوگی۔ امریکی فوجیں افغانستان میں طالبان کو شکست دینے تک جنگ جاری رکھیں گی۔
ٹرمپ کی حکمت عملی کی ناکامی اور امریکی جرنیلوں سے ان کا تصادم:۔
افغانستان میں نیٹو کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے ہزاروں نئے امریکی فوجیوں، ہر طرح کے سازوسامان اور لامحدود اختیارات کے ساتھ اپنے ماتحت افغان فورسز کی مدد سے افغان عوام پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، انہوں نے چھاپوں ، وحشیانہ فضائی اور ڈرون حملوں اور دیگر مظالم کے ذریعے ہزاروں مظلوم افغانوں کو شہید اور گرفتار کیا، قابض جرنیلوں اور ان کے کرائے کے ایجنٹوں نے سوچا کہ ان مظالم کے نتیجے میں اہل ایمان اپنے پیارے ملک کو آزاد کرانے اور اسلامی نظام کے قیام کے موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائیں گے اور ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے لیکن دو سال کے مظالم کے بعد بھی ان کی ظالمانہ کارروائیوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، بلکہ برعکس مجاہدین کی قوت اور حملوں میں اضافہ ہوا، قابض اور افغان فورسز نے کوئی قابل ذکر پیش قدمی نہیں کی جس پر ٹرمپ نے دوبارہ غور کیا اور اپنی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا، اس کے علاوہ ٹرمپ جنگ پسند جرنیلوں پر برس پڑے اور ان سے استفسار کیا کہ آپ نے دعوی کیا تھا کہ مختصر مدت میں طالبان کو شکست دیکر جنگ پر قابو پالیں گے اور افغانستان کے معدنیات سے 3 کھرب ڈالر کی وصولی سے امریکی اخراجات کی تلافی کریں گے لیکن دو سال بعد بھی ٹرمپ کی پالیسی ناکام رہی اور مستقبل میں بھی اس جنگ کی کامیابی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ کو یہ احساس ہو گیا کہ وہ ناکام جرنیلوں کے مشورے کو قبول کرنے کے بجائے اپنے اصل موقف (افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی) پر عمل درآمد کریں اور ان کی حکومت میں شامل ان لوگوں کو برطرف کریں جو جنگ کے دوام پر اصرار کرتے ہیں، اس سلسلے میں ٹرمپ نے سب سے پہلے قومی سلامتی کے مشیر میک ماسٹر جو ٹرمپ کی پالیسی کے ماسٹر مائند تھا، کو برطرف کر دیا، پھر جان بولٹن جو افغان جنگ کے خاتمے اور امریکی فوجیوں کو وطن واپس لانے کے مخالف تھے کو برطرف کردیا اور اس کے بعد جنرل نکولسن اور وزیر دفاع جنرل میٹس کو برطرف کر دیا گیا۔ ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ "میں نے اپنے جرنیلوں کو وہ ساری رقم فراہم کر دی جس کا انہوں نے مطالبہ کیا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ افغانستان میں ناکام رہے۔” میں نے جنرل میٹس کو ایک سال میں 3 بلین ڈالر ادا کیے۔ اگلے سال میں نے 716 بلین ڈالر ادا کیے۔ جنرل میٹس نے میرا بہت شکریہ ادا کیا لیکن انہوں نے اپنے فرائض بہتر انداز سے انجام نہیں دیئے۔
ٹرمپ نے جنگ کے حامی طاقتور گروپ توڑ ڈالا جس نے امریکی جارحیت کے آغاز سے ہی وائٹ ہاؤس پر غلبہ حاصل کیا تھا اس مافیا میں شامل عسکری حکام افغانستان پر قبضہ جاری رکھنا چاہتے ہیں اور امریکہ کو اس لامتناہی جنگ میں شامل رکھنا چاہتے ہیں۔
امریکہ اور امارت اسلامیہ کے مابین مذاکرات اور جرنیلوں کی مزاحمت:۔
اگرچہ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ سے ان تمام عہدیداروں کو برطرف کر دیا جو امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے مخالف تھے لیکن میدان جنگ کے انچارج جرنیل اور فوج میں شامل مافیا جو امن کے مخالف اور جنگ کے تسلسل کے خواہاں ہیں، سازشوں سے باز نہیں آئے، مذاکرات کے آغاز سے پہلے اور مذاکرات کے دوران وہ ہمیشہ یہ بیان جاری کرتے تھے کہ افغانستان سے تمام امریکی فوجوں کا انخلا ناممکن ہے، اگر معاہدہ ہوا تب بھی کچھ امریکی فوجی اور خفیہ ادارے کے اہل کار افغانستان میں تعینات رہیں گے، انہوں نے ٹرمپ کو مذاکرات سے روکنے کی بھرپور کوشش کی، انہوں نے مذاکرات کے دوران فوجی آپریشن میں تیزی لائی اور بے گناہ شہریوں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا تاکہ امارت اسلامیہ کو مذاکرات منسوخ کرنے پر مجبور کیا جاسکے لیکن امارت اسلامیہ کے قائدین جنہوں نے امریکی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ امریکی سرکاری پالیسی پر گہری نظر رکھی اور عسکری حکام کی تخریب کاری اور بددیانتی سے آگاہ تھے، انہوں نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے قابض افواج کے خلاف جہادی کارروائیوں میں کمی نہیں لائی بلکہ ان کے خلاف بھی معمول کے مطابق کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ امریکی جرنیلوں نے امارت اسلامیہ کے حملوں کو امن مذاکرات سے متصادم قرار دیا اور امریکی رہنماؤں کی توجہ ہٹانے اور بات چیت منسوخ کرنے کے لئے پروپیگنڈہ کیا، اور ایک بار اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ ان کے کہنے پر ٹرمپ نے بات چیت منسوخ کرنے کا اعلان کیا لیکن بہت جلد ٹرمپ سمجھ گئے اور انہوں نے دوبارہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا اور اپنا وفد مذاکرات کے لئے دوحہ بھیج دیا۔
معاہدے کی خلاف ورزی، صوابدیدی یا پالیسی:۔
امریکہ اور امارت اسلامیہ کے مابین معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد مظلوم عوام نے سکھ کا سانس لیا اور رات کے چھاپوں ، بم دھماکوں اور دیگر مظالم سے چھٹکارا حاصل کر لیا لیکن حال ہی میں امریکی فوج نے اس معاہدے کی متعدد بار خلاف ورزی کی۔ عوام کو خدشہ ہے کہ امریکہ اپنے وعدوں پر پورا نہیں اتر سکے گا اور ایک بار پھر جارحیت اور مظالم کا سلسلہ جاری رکھے گا؟ کچھ مبصرین کے مطابق یہ امریکی حکومت کی سرکاری پالیسی ہوسکتی ہے اور وہ طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر پشیمان ہوسکتی ہے لیکن میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے سرکاری طور پر امریکی پالیسی کا تقاضا ہے کہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے اور امریکہ افغانستان سے انخلا کرے۔ معاہدے کی خلاف ورزی کرنا امریکی جرنیلوں کی خود ساختہ پالیسی ہے جو امن عمل کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ان کے ماضی کی پالیسی کا تسلسل ہے جو امریکی حکومت کی رضامندی کے بغیر کیا جارہا ہے۔
کابل انتظامیہ کا انچارج کون ہے؟ امریکی حکومت یا امریکی جرنیل؟
امریکی حملے کے وقت سے کابل انتظامیہ نیٹو / امریکی افواج کے کمانڈر انچیف کے زیر کنٹرول ہے، اور امریکی سفیر نے شاذ و نادر ہی ایگزیکٹو امور میں مداخلت کی ہے۔ امریکی جرنیلوں نے افغانستان میں طویل جنگ کی راہ ہموار کردی ہے، موجودہ صورتحال نے اس حقیقت کو مزید اجاگر کیا ہے اور معاہدے پر عمل درآمد کے لئے امریکی جرنیلوں کی مزاحمت کو کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی کی آڑ میں اجاگر کیا گیا ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کو روکنا، جس کا بظاہر کابل انتظامیہ ذمہ دار ہے، لیکن اس کے پیچھے بھی امریکی عسکری مافیا کا ہاتھ ہے۔
امریکی جرنیل افغانستان پر قبضہ ختم کیوں نہیں کرنا چاہتے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی جرنیلوں نے اوباما کے وقت سے افغانستان پر قبضہ ختم کرنے کی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا ہے اور جان بوجھ کر امریکی حکومت کو یہ ارادہ ترک کرنے پر مجبور کیا ہے، اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن تفصیل میں جانے کے بغیر اس کا آسان جواب یہ ہوگا کہ امریکی فوج نے ایک بڑے مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے اور امریکی جرنیلوں کے لئے افغانستان میں جنگ ان گنت پیسہ لوٹنے کا بہترین موقع اور کاروبار ہے، ان کے بدعنوان کٹھ پتلی بھی اس معاملے میں حلیف ہیں، وہ مظلوم لوگوں کے خون کے پیاسے ہیں اور انہیں عام شہریوں کی خونریزی اور غربت پر کوئی دکھ اور کرب نہیں ہیں، امریکی جرنیل بھی افغان کٹھ پتلیوں کی طرح اپنے عوام کے دشمن ہیں اور ان کے ٹیکس سے حاصل شدہ رقم یہاں ایسے خیالی منصوبوں، لاحاصل جنگ اور بیکار کٹھ پتلیوں پر صرف کرتے ہیں جس کا امریکی عوام کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا، امریکی حکومت نے اپنے جرنیلوں پر کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر افغانستان میں خرچ ہونے والے پیسوں کی آڈٹ کے لئے سیگار کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، سیگار کی تفتیش کے بعد امریکی حکومت کو معلوم ہوا کہ افغان جنگ کی آڑ میں بدمعاش جرنیلوں نے اپنی قوم کے خون کو چوسنے سے دریغ نہیں کیا اور وہ کتنے ڈھٹائی سے اس جرم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، اوباما اور اس کے بعد ٹرمپ تین سال بعد بھی امریکی فوجوں کو افغانستان سے واپس بلانے میں کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ ان جرنیلوں کے ساتھ حکومت اور کانگریس میں شامل کچھ اعلی حکام بھی کرپشن کی رقم سے مستفید ہورہے تھے، بدعنوانی کی ایک مثال جس کا میڈیا پر چرچا ہوا، صوبہ جوزجان کے گیس اسٹیشن کے بارے میں سیګار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: امریکی فوجیوں نے افغانستان کے شمالی جوزجان کے ایک گیس اسٹیشن پر ۴۳ 50 ملین خرچ کیے ہیں۔ اس طرح اسٹیشن پاکستان میں نصف ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا، سیگار کی رپورٹ کے مطابق پمپ اسٹیشن پر کام اگست 2011 میں شروع ہوا تھا اور پورے ایک سال کے بعد یہ منصوبہ مکمل ہوا۔ لیکن ایک سال بعد یہ پمپ اسٹیشن ناقابل استعمال ہوا۔ امریکی جرنیل اگر ان منصوبوں میں اپنی کرپشن کو نہ چھپائیں تو وہ سالانہ 45 ارب ڈالر جو ماہانہ 3750 ملین ڈالر بنتے ہیں، کے اخراجات کا حساب کس طرح پورا کریں گے؟
ناکام (جرنیل) امن عمل کو کتنا سبوتاژ کرسکتے ہیں؟
امریکی جرنیلوں کی بدعنوانی، جنگ میں ناکامی، افغان تنازع کا نامعلوم انجام اور بھاری اخراجات وہ تمام عوامل ہیں جن کی وجہ سے امریکی سیاست دان، حکومت کے ممبران، کانگریس کے ارکان اور مجموعی طور پر امریکی عوام نے افغان جنگ ختم کرنے اور امریکی فوجی دستوں کو واپس لانے پر زور دیا ہے اور اس کو ترجیحی بنیادوں پر سنجیدہ موضوع قرار دیا ہے، جنگ کے حامی عہدیداروں کے خلاف ٹرمپ کی کریک ڈاؤن اور امریکی میڈیا میں فوجی جرنیلوں کی ناکامیوں ، بدعنوانیوں اور جھوٹ کو بے نقاب کرنا وہ اقدامات تھے جن کی بدولت امریکی حکومت کو امارت اسلامیہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کا موقع اور اختیار دیا اور معاہدے پر دستخط کرنے سے یہ مشکل کام انجام دیا۔
اب جب کہ امریکہ اور امارت اسلامیہ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا ہے لہذا میدان جنگ میں امریکی جرنیلوں کی خلاف ورزیاں اور جارحیت عارضی مسائل پیدا کرسکتی ہے لیکن بنیادی طور پر امریکی افواج کے انخلا اور امن عمل کو سپوتاژ کرنے کے چانسز ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ اس صورتحال کے بارے میں امارت اسلامیہ کے دانشمندانہ فیصلوں اور اقدامات نے قوم کے خون کے پیاسے اور مغرب کے غلام کٹھ پتلی عناصر کو مایوس کر دیا ہے کیوں کہ وہ امارت اسلامیہ اور امریکہ کے مابین تاریخی معاہدہ توڑنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ملک میں دوبارہ خونریزی، جنگ اور تباہی کا سلسلہ شروع ہو جائے اور وہ برسر اقتدار رہے۔
امریکہ کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال کے پیش نظر اسکاٹ میلر کی دھمکیوں اور کٹھ پتلیوں کے حوصلے بڑھانے کی کوششوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور نہ ہی امن کے جاری عمل پر اس کے کوئی منفی اثر مربت ہوسکتا ہے۔ کابل انتظامیہ اگر اسکاٹ میلر کے اشارے پر مشترکہ مفادات کی بنیاد پر معاہدے پر مرحلہ وار عملدرآمد میں رکاوٹ پیدا کرسکتی ہے تو عوام بھی قابض افواج کے مکمل انخلا تک ایک اور سال انتظار کرسکتے ہیں! افغانستان کو ایک آزاد ، پرامن اور خوشحال اسلامی نظام کے حامل ہونے کے لئے عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے عارضی مسائل کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ امارت اسلامیہ کے مدبر قائدین اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور وہ دن دور نہیں کہ اللہ تعالٰی اپنی مدد ، مجاہدین کی لازوال قربانیوں اور قائدین کے خلوص کی بدولت ہمیں ایک آزاد اسلامی نظام کے ثمرات سے مستفید فرما کر اس تاریخی معرکے میں مسلمانوں کو سرخرو کرے گا، ان شاء اللہ وما ذالک علی اللہ بعزیز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے