بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف گذشتہ چار روز میں احتجاجی مظاہرے کے دوران میں پُرتشدد جھڑپوں اور ہندو بلوائیوں کے حملوں میں مرنے والوں کی تعداد بتیس ہوگئی ہے اور دو سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔بھارت نے امریکا پر فرقہ وار تشدد کے ان واقعات کو سیاسی رنگ دینے کا الزام عاید کیا ہے۔

امریکا کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کو نئی دہلی میں تشدد کے واقعات پر گہری تشویش لاحق ہے۔اس نے بعض عینی شاہدین کے بیانات کے حوالے سے کہا تھا کہ پولیس نے مسلمانوں پر ہندو بلوائیوں کے حملوں کے دوران میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی لیکن بھارت کی مرکزی حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

امریکا کے اس کمیشن کی کمشنر انوریما بھارگاوا نے ایک بیان میں کہا کہ’’دہلی میں یہ سفاکانہ اور کسی روک ٹوک کے بغیر تشدد جاری نہیں رہ سکتا۔بھارتی حکومت کو تمام شہریوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہییں لیکن اس کے بجائے ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ دہلی پولیس نے مسلمانوں کے خلاف پُرتشدد حملوں کو روکنے کے لیے کوئی مداخلت نہیں کی ہے اور حکومت شہریوں کے تحفظ میں اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘

کمیشن کے چیئرمین ٹونی پرکنس نے بھارتی حکومت پر زوردیا ہے کہ ’’وہ مسلمانوں اور ازدحامی تشدد کا نشانہ بننے والے دوسرے افراد کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔‘‘

اس کے ردعمل میں بھارت کی خارجہ امور کی وزارت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی کمیشن کا بیان حقائق کے اعتبار سے درست نہیں ہے اور یہ گمراہ کن ہے۔بظاہر یہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہے۔

نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے چاند باغ میں گذشتہ اتوار کو ہندو بلوائیوں نے مسلمانوں پر حملے کیے تھے اور ان کے مکانوں کو نذر آتش کردیا تھا۔ نئی دہلی کے اس شمال مشرقی علاقے میں مظاہرین اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے درمیان تناؤ پایا جارہا ہے۔

جمعرات کو ایک فوٹیج میں ایک شاہراہ پر واقع دکانیں اور عام لوگوں کی گاڑیاں جلی ہوئی دیکھی گئی ہیں۔ہندو بلوائیوں نے گذشتہ تین روز کے دوران میں انھیں پٹرول بموں سے نذر آتش کردیا تھا۔اس شاہراہ پر ہیلمٹ پہنے پولیس اہلکار گشت کررہے تھے۔

بھارت کے بعض میڈیا ذرائع نے نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں کے بارے میں کئی ایک رپورٹس شائع اور نشر کی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندو بلوائیوں نے مسلمانوں کی املاک اور گھروں پر حملے کیے تھے اور اس دوران میں وہ ہندومت کے مذہبی نعرے لگا رہےتھے۔ان رپورٹس کے مطابق ہندو بلوائیوں کے جتھے آزادانہ حملے کررہے تھے اور پولیس نے بظاہر ان کی پُرتشدد کارروائیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی۔

بعض رپورٹس کے مطابق مسلمان مظاہرین نے بھی تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا اور انھوں نے بعض ہندوؤں اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کے لیے تھے۔مرنے والوں میں بعض ہندو اور سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہے۔تاہم زیادہ تر واقعات میں مسلمانوں ہی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔بھارتی دارالحکومت کے مسلم آبادی والے علاقوں میں پولیس کا نام ونشان نظر نہیں آرہا تھا۔

او آئی سی کی مذمت

دریں اثناء اسلامی تعاون تنظیم( او آئی سی) نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی مذمت کی ہے۔

تنظیم نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’ او آئی سی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی مذمت کرتی ہے۔ان کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں یا وہ زخمی ہوئے ہیں۔مساجد پر حملے کیے گئے ہیں، مسلمانوں کی ملکیتی املاک کو نذرآتش کیا گیا ہے۔ تنظیم تشدد کے ان ہلاکت آفریں واقعات میں مارے گئے افراد کے خاندانوں سے مخلصانہ تعزیت کا اظہار کرتی ہے۔‘‘

او آئی سی نے بھارتی حکام پر زوردیا ہے کہ ’’وہ تشدد کے واقعات کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور بھارت میں اسلامی مقدسات کا تحفظ کریں۔‘‘

بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے دسمبر میں نفاذ کے بعد سے احتجاجی جاری تحریک ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں پُرتشدد احتجاجی مظاہروں میں اب تک ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے متعارف کردہ اس نئے قانون کے بارے میں امریکا سمیت بہت سے ممالک اپنی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم مودی اس طرح کے اقدامات کے ذریعے بھارت کی ایک سیکولر ملک کی شناخت کو ختم کررہے ہیں اور وہ ملک کو ہندو قوم پرست بنانا چاہتے ہیں جبکہ وہ ملک کی بیس کروڑ مسلم آبادی کو دیوار سے لگا رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے