ترکی سخت گیر جنگجو گروپ داعش کے گیارہ فرانسیسی جنگجوؤں کو دسمبر کے اوائل میں بے دخل کرکے ان کے آبائی وطن میں بھیج دے گا۔

ترک وزیر داخلہ سلیمان سوئلو نے جمعرات کے روز ایک بیان میں داعش کے گرفتار ان جنگجوؤں کو فرانس بھیجنے کی اطلاع دی ہے۔ وہ اس وقت ترکی میں حراستی مراکز میں بند ہیں۔

ترکی نے داعش کے گرفتار غیرملکی جنگجوؤں کو نومبر کے اوائل میں ان کے آبائی ممالک میں بھیجنے کا آغاز کیا تھا۔ترکی نے قبل ازیں ایک امریکی دہشت گرد سمیت متعدد غیر ملکی جنگجوؤں کو تمام کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ان کے آبائی ممالک میں واپس بھیجا تھا۔ان جرمن نژاد سات غیرملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔ انھیں 14 نومبر کو ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔

ترک وزیرداخلہ سلیمان سوئلو نے قبل ازیں داعش کے گرفتار ارکان کی ان کے آبائی ممالک کو واپسی کے معاملے میں یورپی یونین کی بے عملی کی شکایت کی تھی۔انھوں نے داعش کے قیدیوں کا معاملہ تنہا ترکی پر چھوڑنے پر یورپ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ اگر داعش کے گرفتار ارکان کی ان کے آبائی ممالک نے شہریت منسوخ کردی ہے تو تب بھی ہم انھیں واپس بھیج دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’اب دنیا ایک نیا طریقہ سامنے لے آئی ہے اور اس نے ان گرفتار جنگجوؤں کی شہریت ہی منسوخ کردی ہے۔ دوسری جانب یورپی اقوام کا موقف ہے کہ مشتبہ جہادیوں کے خلاف ان ممالک میں مقدمات چلائے جانے چاہییں جہاں انھوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔میرے خیال میں بین الاقوامی قانون کی یہ ایک نئی قسم ہے۔‘‘

ترکی قریباً ڈھائی ہزار غیرملکی جنگجوؤں کوبے دخل کرکے ان کے آبائی ممالک کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔اس وقت ترکی کے تیرہ بے دخلی مراکز میں کم سے کم آٹھ سو انتہا پسندوں کو رکھا گیا ہے اور ان کی آبائی ممالک کو حوالگی کے لیے سفری کاغذات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے قبل ازیں ایک بیان میں کہا تھا کہ اس وقت ترکی کی جیلوں میں داعش کے 1,201 قیدی ہیں۔

ترکی نے گذشتہ ماہ شام کے شمالی مشرقی علاقے میں کرد ملیشیا ( وائی پی جی) کے خلاف کارروائی کی تھی۔اس دوران میں کردملیشیا کے زیر قیادت شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کے زیر انتظام جیلوں سے داعش کے سیکڑوں جنگجوفرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔تاہم ترک فوج نے ان میں سے سیکڑوں کو دوبارہ گرفتار کرلیا تھا۔

شام میں کرد ملیشیا نے داعش کے خلاف امریکی فوج کی معاونت سے لڑائی میں قریباً دس ہزار جنگجوؤں کو گرفتار کیا تھا۔ان میں کا پانچواں حصہ یورپی ممالک سے تعلق رکھتا ہے۔ڈنمارک ، جرمنی اور برطانیہ نے ان میں سے بعض انتہا پسندوں کی شہریت منسوخ کردی ہے اور یہ ممالک انھیں واپس لینے سے انکاری ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے