نئی دہلی:  بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنانا شروع کر دیا۔ عدالت نے کہا بابری مسجد خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی، بابری مسجد کی کوئی اسلامی تاریخ نہیں ملتی، واضح نہیں کہ مندر کو منہدم کیا گیا تھا۔

 چیف جسٹس رانجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے 40 روزہ سماعت کے بعد 16 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا بابری مسجد خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی، مسجد کے نیچے غیر اسلامی عمارتی ڈھانچہ موجود تھا، واضح نہیں کہ مندر کو منہدم کیا گیا تھا، عدالت کیلئے مناسب نہیں کہ کسی کے عقیدے پر بات کرے، عبادت گاہوں کے مقام سے متعلق ایکٹ تمام مذہبی کمیونٹیز کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، ہندوؤں کا خیال ہے یہ رام کی جنم بھومی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق فیصلے کے اعلان کے پیش نظر ریاست اتر پردیش سمیت بھارت کی بیشتر ریاستوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی، سوموار تک اترپردیش، کرناٹک، جموں سمیت متعدد ریاستوں میں سکول و کالج بند کر دئیے گئے جبکہ مذہبی مقامات کی سکیورٹی سخت کر دی گئی۔

ادھر دہلی پولیس نے پانچوں ججوں کی رہائش گاہوں کے باہر سکیورٹی سخت کر دی جبکہ متعلقہ حکام کو حساس علاقوں میں اضافی نفری تعینات کرنے کے احکامات بھی جاری کر دئیے گئے۔ محکمہ داخلہ اور پولیس حکام کے مطابق ایودھیا میں پانچ ہزار سے زائد پولیس اور پیرا ملٹری فورس کے اہلکار تعینات کر دئیے گئے ہیں۔

نیوز ایجنسی کے مطابق فیصلے سے قبل ہی ہزاروں ہندو سادھو اور عقیدت مند ایودھیا پہنچ گئے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے پر بھارتی وزارت داخلہ کے سینئر افسر نے بتایا کہ مختلف حکومتی ایجنسیاں ممکنہ تشدد روکنے کیلئے تیاریاں کر رہی ہیں۔ ہر سکیورٹی افسر عدالتی فیصلے کے بعد ہر قسم کے فسادات کو روکنے کیلئے پرعزم ہے۔ ضرورت پڑنے پر مختلف سکولوں میں عارضی جیلیں قائم کی جا سکتی ہے جن کی ریاستی حکومتیں نشاندہی کر چکی ہیں۔

اترپردیش کے پولیس چیف اوم پرکاش سنگھ نے بتایا کہ ایودھیا شہر سے 500 سے زائد افراد گرفتار کئے گئے ہیں، زیادہ تر گرفتاریاں شبہ میں جبکہ 70 افراد کو اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹس شیئرکرنے پر گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر علاقے میں انٹرنیٹ سروس بند کی جا سکتی ہے۔

پولیس نے 10 ہزار سے زائد افراد کی نشاندہی کی ہے جوکہ شرپسند ہیں۔ تمام ضروری احتیاطی اقدامات کئے جا رہے ہیں، اشتعال انگیز پوسٹس کی نشاندہی کیلئے سوشل میڈیا سائٹس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ فیصلے پر ہندوؤں یا مسلمانوں کو ردعمل کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

نیوز ایجنسی کے مطابق گجرات اور مہاراشٹر کے حساس علاقوں میں مسلم علما نے ہندو رہنماؤں کیساتھ امن ملاقاتوں کا مطالبہ کیا ہے۔ آل انڈیا مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے بتایا کہ ہزاروں مسلم مذہبی رہنما عدالتی فیصلے کے بعد امن و ہم آہنگی برقرار رکھنے کا عہد کر چکے ہیں، 1992 کے مذہبی فسادات کا منظر دہرایا نہیں جائیگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے