آج کی بات

پینٹاگون نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اس نے پچھلے ستمبر میں افغانستان میں ہر روز اوسطا 40 فضائی حملے کیے، جسے کابل کٹھ پتلی انتظامیہ نے اہم پیش رفت قرار دیا۔ کہا کہ یہ حملے ان کے حق میں کیے گئے تھے، لیکن اسی وقت کابل انتظامیہ کے سربراہ نے ایک بار پھر کہا کہ انہوں نے قیام امن کے لیے سات نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان سیز فائر کا اعلان کریں تو وہ ان سے بات کریں گے۔ امارت اسلامیہ ان سے بات کرے یا نہیں؟ اگر بات کرے گی تو کن شرائط پر اور بات نہیں کرے گی تو کیوں؟ یہ سوالات پہلے ہی کلیئر ہو چکے ہیں۔ دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ طالبان کبھی بھی کابل کے ساتھ مذاکرات کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے۔ کابل کا اختیار امریکا کے پاس ہے۔ وہ امن اور جنگ کی صلاحیت سے محروم ہے۔ کابل انتظامیہ صرف غیرملکیوں کے لیے اپنے ہی لوگوں کی قاتل ہے۔ وہ خود کو واشنگٹن اور نیویارک کا سکیورٹی گارڈ سمجھتی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ایسی انتظامیہ اپنے آپ کو اس سرزمین کا حاکم مانتی ہے۔ حملہ آور ایک ماہ کے دوران ایک ہزار سے زائد بم گراتے ہیں۔ ہزاروں بے گناہ انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔ کابل انتظامیہ ان سے پوچھ گچھ کے بجائے ان مظالم پر دشمن کا خیرمقدم کرتی ہے۔ حملہ آوروں کے تحفظ کے لیے براہ راست کردار ادا کرتی ہے۔ اپنی قوم سے لڑتی ہے۔ اپنے ملک کے ہر شہری، عورت، مرد، بچے، نوجوان، مساجد، اسکول، کلینک، گھر ، گاؤں، پہاڑ، جڑی بوٹیاں، درخت سمیت ہر چیز کو دشمن سمجھتی ہے۔ بموں اور نہ ہی چھاپوں اور فضائی حملوں سے اس کے ضمیر پر بوجھل ہوتا ہے۔ کیا ایسا ادارہ بات کرنے کے قابل ہے؟

ان لوگوں کی صلاحیتیں اتنی ہیں کہ دس میٹر میں بھی وہ ایک دوسرے کے احکامات نہیں مانتے ہیں۔ ہر ایک خود مختار ہے، جس کا جو جی چاہتا ہے، کر لیتا ہے۔ ہر ایک امریکی وائسرائے کے ریموٹ کنٹرول پر چلتا ہے۔ ایک مہینے میں جعلی ووٹ گن نہیں سکتے۔

کیا اس طرح کی ملک دشمن اور نااہل و بےاختیار انتظامیہ یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ امن کے حوالے سے فارمولہ پیش کرے۔ کیا ہر روز اپنی قوم پر مظالم ڈھانے والی انتظامیہ کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ طالبان سے فائر بندی کا مطالبہ کرے؟

ایسی انتظامیہ کہہی قانون کے تحت ایک سال سے غیرقانونی طور پر کابل پر مسلط ہے۔

اگر ان میں سمجھ نام کی کوئی چیز موجود ہوتی تو وہ پہلے اپنی حیثیت دیکھتی اور اپنی ناکامیوں کو دیکھتی۔ ان کے چنگیزی مظالم کی وجہ سے عوام انہیں کس حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ خطے اور پڑوسی ممالک کا ان پر کتنا اعتماد ہے؟ ان کے آقا ان سے کتنی نفرت کرتے ہیں؟

ایک ایسا کٹھ تپلی، ناجائز، نااہل، کرپٹ اور قاتل ادارہ کبھی بھی یہ صلاحیت نہیں رکھتا، جو ملک میں قیام امن اور دیگر مسائل کے حوالے سے اپنا فارمولہ پیش کرے اور نہ ہی اس کی باتیں قابل غور ہیں۔ اس کا وجود ناجائز قبضے کے دم سے زندہ ہے۔ جب افغان عوام کے مقدس جہاد کے نتیجے میں بیرونی جارحیت کا خاتمہ ہوگا تو ان کے وجود سے بھی مظلوم عوام نجات پائیں گے۔ ان شاء اللہ

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے