زمین پر رہتے ہوئے لوگ بعض اوقات اپنے اطراف کی چیزوں سے ایسے مانوس ہوجاتے ہیں کہ وہ چیزیں ان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اگر وہ جدا ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں لوگ دکھی اور افسردہ ہوتے ہیں۔ ان اشیاء کے ساتھ لوگوں کی حسین یادیں وابستہ ہوں تو دکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

سعودی عرب کی الباحہ گورنری کے صدیوں پرانے ایک درخت اور مقامی آبادی کے درمیان تعلق کی نوعیت بھی ایسی ہی تھی۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ‘بنی کبیر’ کے مقام پر موجود’رقعۃ الحدب’ نامی 400 سال پرانے درخت نے مقامی آبادی کو اس وقت دکھی کردیا جب درخت بغیر کسی وجہ کے اچانک دو حصہ میں تقسیم ہونے کے ساتھ جڑوں سے اکھڑ گیا۔

رقعۃ الحدب کے ساتھ مقامی آبادی کی تاریخی یادیں وابستہ تھیں۔ وہ درخت کا درخت اور دوست کا دوست تھا۔ گھنا سایہ دار درخت علاقے کی ایک حسین یاد گار تھی۔ صدیوں سے اس کے سائے تلے بڑی بڑی محفلیں جمتیں۔ کبھی دو فریقین کے درمیان صلح کے لیے اس کے سائے تلے جرگے کیے جاتے۔ مشاعرے ہوتے۔ داستان گوئی کی محفلیں لگتیں اور مسافرو راہ گیر اس کے سائے میں بیٹھ کر آرام پاتےمگر اب سایہ دار پیڑ نہیں رہا۔

کچھ رہائشیوں نے بتایا کہ معمر افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس درخت کو بچپن میں ایسا ہی دیکھا۔ وہ بوڑھے ہوگئے مگر درخت جیسا تھا ویسا ہی رہا۔ بنی کبیر کے کچھ رہائشیوں نے بھی اس درخت کے ٹکڑے ہونے کی وجہ کوتاہی کو اور انتظامیہ کی غفلت قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ محکمہ زراعت کی جانب سے مناسب دیکھ بھال نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں ایک سایہ دار یادگار درخت زمین بوس ہوگیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے