مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد وادی میں پانچویں روز بھی لاک ڈاؤن جاری ہے، نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے شہری کرفیو کو روند کر مسجد پہنچے۔ کارگل میں ہنگامے پھوٹ پڑے،شہریوں نے بھارت کی طرف سے خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد احتجا ج کیا گیا، شہریوں نے مطالبہ کیا کہ وادی کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے۔ اسی دوران عوام نے بھارتی فوجیوں کی دوڑیں لگوا دیں، جس کے بعد درجنوں شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق مقبوضہ وادی میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پانچویں روز بھی احتجاج جاری ہے۔ مقبوضہ وادی کا سخت ترین کرفیو کے باعث شہریوں کے پاس کھانے پینے کی اشیاء ختم ہو گئی ہیں۔ بھارتی فوج کے ہزاروں اہلکار سڑکوں پر گشت کررہے ہیں جبکہ دکانیں بند ہیں، گزرگاہوں پر جگہ جگہ خاردار تاریں لگا کر علاقے کو دوسرے علاقے سے علیحدہ کیا گیا ہے اور وادی میں ایسی خاموشی طاری رہی کہ صرف سیکیورٹی اداروں کی گاڑیوں کے سائرن کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔

وادی کی طرف آنے والے راستوں کو بھارتی قابض افواج نے خار دار تاریں لگا کر بند کیا ہوا ہے، جموں، کٹھوعہ، سامبا، پونچھ، ڈوڈا، ادھمپور سمیت دیگر علاقوں میں زیادہ سختی ہے۔ شہریوں کو باہر آنے سے منع کیا جا رہا ہے۔

مسلسل پانچویں روز میڈیا بھی بلیک آؤٹ ہے۔ اخبارات کی ترسیل بند ہے۔ بھارتی افواج نے خوف کے باعث انٹرنیٹ، موبائل سروس بھی بند کر رکھی ہیں۔ سکولوں اور کالجوں سمیت تمام تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔

اُدھر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں شدید کرفیو کے باعث ایک ماں اپنے بیٹے سے رابطہ نہ ہونے پر دہائیاں دے رہی ہے کہ پانچ دن سے میرا بیٹے سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ لوگ کرفیو کی وجہ سے گھروں تک محصور ہو رہ گئے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء ختم ہو گئی ہیں۔

دوسری طرف بزرگ حریت رہنما سیّد علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سمیت دو درجن سے زائد حریت رہنماؤں کو سرینگر سے جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ انہیں آگرہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔ حریت رہنماؤں کو آگرہ جیل خصوصی جہاز کے ذریعے منتقل کیا گیا۔

دریں اثناء مقبوضہ وادی میں بندوقوں کے سائے تلے نمازجمعہ ادا کی گئی۔ بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی اور کرفیو توڑتے ہوئے شہریوں کی بڑی تعداد نمازجمعہ کی ادائیگی کے لیے مساجد پہنچی۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے شہری کرفیو کو روند کر مسجد پہنچے۔ کارگل میں ہنگامے پھوٹ پڑے،شہریوں نے بھارت کی طرف سے خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد احتجا ج کیا گیا، شہریوں نے مطالبہ کیا کہ وادی کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے۔ اسی دوران عوام نے بھارتی فوجیوں کی دوڑیں لگوا دیں، جس کے بعد درجنوں شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

 سرینگر کے شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال میں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کے زیر استعمال پیلٹ گن اور ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہونے والے 50 سے زائد افراد کو اب تک طبی امداد کے لیے لایا جاچکا ہے۔

اُدھر حیران کن طور پر بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں بھی کشمیریوں کے حق میں طلبہ کی بڑی تعداد نے ریلی نکالی اور کشمیریوں کے حق میں صدائیں بلند کیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں مختلف کالجوں اور یونیورسٹیز کے سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ریلی نکالی۔ یہ ریلی مال چھتر، اوپورجیو بنگلہ سے ہوتی ہوئی سینٹرل شہید مینار تک گئی۔ جس میں دیگر شہری بھی شامل ہوتے رہے۔

ریلی کے دوران طلبہ سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے صدائیں بلند کیں۔ ان میں ’’ہم آزادی چاہتے ہیں‘‘، ’’ہماری زمینوں کو آزاد کرو‘‘ اور کشمیر میں آپریشنز بند کیے جائیں۔ انٹر نیٹ، موبائل اور لینڈ لائن کو فوراً چالو کیا جائے۔

حیران کن انداز میں ایسی نوجوان لڑکیاں بھی موجود تھیں جنہوں نے میڈیکل والے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے آوازیں بلند کر رہی تھیں۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے فیصلے کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ کشمیر کو آزاد کیا جائے اور نام نہاد آرڈیننس واپس لیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے