افغان طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی کے مسائل کو “مشترکہ کمیٹیوں” کے ذریعے حل کیا جائے اور سامان اور مسافروں کی آمد ورفت کے لیے اہم سرحدی گذرگاہوں کو “سیاسی اور سلامتی خدشات” کی بنا پر بند نہیں ہونا چاہیے۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان سفیر آصف خان درانی نے جمعرات کو کابل کا دورہ کیا اور طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے بات چیت کی۔
پاکستان اور افغانستان اسلام آباد کے ان الزامات پر مہینوں سے تعلقات میں تعطل کا شکار ہیں کہ اس کا ہمسایہ ملک کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کو پناہ اور انہیں اپنی سرزمین کو حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ افغانستان نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
گذشتہ جمعہ کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم کے مقام پر ایک اہم سرحدی گذرگاہ سرحدی نو دن کی بندش کے بعد دوبارہ کھول دی گئی جسے فورسز کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے بند کیا گیا تھا۔ طورخم سرحدی گذرگاہ کی بندش سے ہزاروں مسافر اور سامان سے لدے سینکڑوں ٹرک درۂ خیبر کے مغربی کنارے پر پھنسے رہے۔
افغان نائب ترجمان حافظ ضیاء احمد نے کہا کہ “سکیورٹی کے مسائل کو مشترکہ کمیٹیوں کے ذریعے حل کیا جائے اور سرحدی گذرگاہوں کو سیاسی اور سلامتی کی وجوہات کی بنا پر بند نہیں ہونا چاہیے۔”۔
۔”افغانستان اور پاکستان دو ہمسایہ اور اسلامی ممالک ہونے کے ناطے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے گریز کریں تاکہ فریقین کے درمیان فاصلے نہ بڑھیں۔”۔
انہوں نے کہا کہ کابل کے “ارادے نیک” ہیں اور وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات “خراب” کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دیں گے۔
پاکستانی سفیر کے حوالے سے احمد نے کہا کہ وہ “پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی گذرگاہوں پر پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے ساتھ آئیں گے۔”۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نے تاحال اس ملاقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
قبل ازیں طورخم پر ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں پاکستان نے کہا تھا کہ طالبان انتظامیہ نے “غیر قانونی ڈھانچہ” تعمیر کر کے اس کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور افغان فورسز کی جانب سے “اندھا دھند فائرنگ” کا حوالہ دیا تھا۔
طالبان کی وزارتِ خارجہ نے گذرگاہ کی بندش پر تنقید کی اور کہا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے اس کے سرحدی محافظوں پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ ایک پرانی فوجی چوکی پر تعینات تھے۔