بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ٹھیک چوراسی سال قبل آج ہی کے دن یعنی 30 مئی 1939ء کو اپنی آخری وصیت لکھی تھی۔اس وصیت کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جائیداد متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تین معروف تعلیمی اداروں کے نام وقف کردی تھی۔ان میں ان کی مادرِعلمی سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی بھی شامل تھا۔

اب یہ تاریخی تعلیمی ادارہ جامعہ بن چکا ہے۔اس دانش گاہ کے سابق وائس چانسلر اور معروف ماہرتعلیم ڈاکٹر محمد علی شیخ نے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ بانیِ پاکستان کی ملکیتی جائیدادوں میں لاہور کا جناح ہاؤس بھی شامل تھا۔اسی کو نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )سے تعلق رکھنے والے بلوائیوں نے نذرآتش کردیا تھا اور وہاں سے گھریلو اشیاء تک لوٹ کرلے گئے تھے۔

قائداعظم نے اپنے وصیت نامے میں اپنی جائیداد تین تعلیمی اداروں کو وقف کی تھی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ، یوپی، بھارت)، اسلامیہ کالج، پشاور اور کراچی کے سندھ مدرسۃ الاسلام کوجائیداد میں سے ایک،ایک تہائی حصہ دینے کی وصیت کی تھی۔

ڈاکٹرایم علی شیخ بتاتے ہیں کہ 1984ء تک قائداعظم محمد علی جناح کی تمام جائیدادوں کو بیچ دیا گیا تھا اور ان تینوں اداروں میں سے ہر ایک کے حصے میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ، گیارہ ہزار روپے آئے تھے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ بانیِ پاکستان نے اس کے علاوہ بمبئی یونیورسٹی کو 50 ہزار روپے اور عربی کالج دہلی (اینگلوعربیک کالج دلّی) اور انجمن اسلام اسکول بمبئی کو 25،25 ہزار روپےعطیہ دینے کی ہدایت کی تھی۔

وہ ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ یہ تمام جائیداد اور رقم محمد علی جناح کی محنت کی کمائی تھی اور انھوں نے یہ تعلیم کے لیے وقف کر دی تھی۔ اب تک کسی دوسرے لیڈر نے ان کی طرح نہیں کیا ہےکہ اپنی جائیداد کو وطن عزیز میں تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کردیا ہو۔انھوں نے ٹویٹ میں قائداعظم کے ہاتھ سے لکھی گئی آخری وصیت کے متعلقہ حصے کی نقل بھی دی ہے۔

واضح رہے کہ قائداعظم کی طرف سے اپنی جائیداد کو مذکورہ تین بڑے تعلیمی اداروں کو دینے کی بابت تو معلومات عام ہیں لیکن یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انھوں نے جامعہ بمبئی (اب ممبئ) اور عربی کالج دہلی کو بھی نقدرقوم دینے کی وصیت کی تھی۔

جناح ہاؤس لاہور کو نو مئی کو پی ٹی آئی کے حامیوں نے احتجاج کے دوران میں نذرآتش کردیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے