گذشتہ روز ایران کے صدر نے ہلمند کے پانی کے متعلق سلسلہ وار بیانات دیے۔ اسی سے متعلق ہم ذیل میں وضاحت کرتے ہیں۔
افغانستان اور ایران کے درمیان نصف صدی قبل 1972 میں پانی کا معاہدہ طے پایا تھا جو آج بھی برقرار ہے، امارت اسلامیہ افغانستان کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے۔ حالیہ برسوں میں افغانستان اور خطے میں شدید خشک سالی گزری ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلا گیا ہے۔ دریائے ہلمند سمیت ہمارے کئی صوبے بھی خشک سالی کا شکار رہے اور وہاں پانی بھی کافی مقدار میں نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں ایران کی جانب سے پانی کی بار بار درخواست اور پھر میڈیا میں نامناسب بیانات کا سلسلہ نقصان دہ ہے۔ ایرانی حکام پہلے قانونی ذرائع سے ہلمند کے پانی کے بارے میں اپنی معلومات مکمل کریں اور پھر مناسب الفاظ میں اپنی درخواست کا اظہار کریں۔ حقیقت کا صحیح مطالعہ کیے بغیر اس نوع کے بیانات جاری کرنا جن سے دونوں برادر مسلم ممالک کے درمیان سیاسی ماحول خراب ہو جائے کسی ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔
امارت اسلامیہ ایک بار پھر وعدہ کرتی ہے کہ ہلمند آبی معاہدے کے پیش نظر ایرانی عوام کو معاہدے کے مطابق پانی جاری کرنے کی پوری کوشش کرے گی لیکن اس شرط پر کہ ہمارے پانی کے ذخائر اس سطح پر پہنچ جائیں کہ اگر ہم اسے ایران کو چھوڑ دیں تو یہ ہلمند کے خشک دریا میں سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے باوجود ایران پہنچ جائے۔ فی الحال کمال خان ڈیم میں پانی نہیں ہے اور اگر کجکی ڈیم سے پانی چھوڑا جائے تو وہاں نہیں پہنچے گا، اس لیے  ایرانی حکام ان حقائق کا ادراک کرلینا چاہیے۔

رئیس الوزرا آفس، امارت اسلامیہ افغانستان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے