فلسطین کے تاریخی شہرمقبوضہ بیت المقدس کو یہودیانے کے لیے نسل پرست صہیونی ریاست نت نئے منصوبے اور سازشیں رچاتی رہتی ہے۔ دشمن ریاست کے ان سازشی منصوبوں کا مقصد ایک طرف یہودی انتہا پسندوں کو شہر میں اپنے پنجے گاڑنے کے مواقع فراہم کرنا اور دوسری طرف القدس کی تاریخی اسلامی، عرب، تہذیبی اور ثقافتی شناخت مٹا کراسے دنیا کےسامنے ایک یہودی شہر کے طور پر پیش کرنے کا ڈھونگ رچانا ہے۔

القدس کی شناخت مٹانے کے لا تعداد سازشی ہتھکنڈوں میں معلق ہوائی پل [ایئربرج] اور ’کیبل کار‘ جیسے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ ’کیبل کار‘ یہ نیا منصوبہ بہ ظاہر یہ ایک پل ہے جویہودی آباد کاروں کو مسجد اقصیٰ تک پہنچنے کے لیے مختصر اور مخفوظ راستہ فراہم کرے گا مگراس کے در پردہ اصل مقصد القدس شہر کی اسلامی، عرب اور ثقافتی علامات کو مٹانا اور القدس پر یہودی تلمودی چھاپ کو مستحکم کرنا ہے۔

کیبل کار 200 میٹر سے زیادہ طویل ہے۔ اس پل کے ذریعے قابض صہیونی حکام  سلوان کی فضا میں گھس کر القدس شہر میں یہودی اسٹیٹس کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

اس منصوبے پر کئی  مہینوں سے کام جاری ہے اور اب قابض حکام سلوان قصبے کے وادی الربابہ محلے میں معلق فضائی پل کے منصوبے کی تکمیل کے قریب ہیں جو مسجد اقصیٰ کے جنوب میں آباد کاری کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس کا مقصد یہودی آباد کاروں کو  حرم قدسی تک رسائی اور نقل حرکت کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ شہر کی اسلامی خصوصیات کو تبدیل کرنا ہے۔

یہودیوں کے نقوش

القدس میں نام نہاد ’کیبل کار‘ منصوبے کو فلسطینی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

یروشلم کے امور کے ماہرناصر الہدمی کا کہنا ہے کہ قابض حکام وادی الربابہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آبادکاری کے منصوبوں پرکام جاری ہے جن میں اہم منصوبہ ’ایئربرج‘ یا کیبل کار کا ہے۔ یہ پل الثوری محلے سے شروع ہوتا ہے، وادی الربابہ کے محلے سے گذرتا ہوا نبی داؤد کے مقام تک جاتا ہے۔ ہوا میں کیبل کار اور  وادی ربابہ کی زمین میں یہودیوں کی جعلی قبریں بنانے، بائبل ٹریکس بنانے اور توراتی باغات بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

الہدمی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قابض ریاست کی توجہ وادی الربابہ کے علاقے پر مرکوز ہے۔ یہ اس لیے بھی توجہ کا مرکز ہے کیونکہ یہ مسجد اقصیٰ کے قریب واقع ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ قابض حکام اس طرف سے یروشلم کے محلوں میں گھسنا چاہتا ہے اور انہیں یہودی بستیوں کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے جس میں آباد کاروں کے غول شہر کو کنٹرول کرنے اور یروشلم کی کمیونٹی کو مسجد اقصیٰ میں جمع ہونے اور آپس میں میل جول سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس منصوبے کا کوئی ایک مقصد نہیں۔ اس کے کئی ایک مقاصد ہیں جن میں مسجد اقصیٰ میں آباد کاروں کی دراندازی کو آسان بنانا، انہیں مزید تحفظ فراہم کرنا، شہر کے مشرقی حصوں میں آباد کاروں کی موجودگی کو معمول پر لانا، ان محلوں میں ان کو گھسانا، اس طرح القدس کو ٹکڑےٹکڑے کرنا اور اس کی شناخت تبدیل کرنا جیسے  مذموم مقاصد اس منصوبے کے پیچھے موجود ہیں۔

اس منبصوبے پر اصل کام گذشتہ نومبر میں شروع ہوا تھا اور یہ 200 میٹر سے زیادہ طویل کیبل کار تیار کرنے کام کام دن رات جاری رہا۔ اس کی سطح زمین سے اونچائی 35 میٹر اور چوڑائی 4.5 میٹر ہے۔

ثقافتی شناخت کو تبدیل کرنا

اسلامک کرسچن کمیشن کی سیکرٹری جنرل حنا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ وادی الربابہ کا محلہ دیگر وادیوں کے علاوہ مقدس شہر کی سرزمین کا ایک اٹوٹ انگ ہے اور اسی وجہ سے قابض حکام اسے آباد کرنے اور یہودیانے کے لیے سرگرم ہیں۔

عیسیٰ نے فلسطینی انفارمیشن سینٹر کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل اب 600 مربع کلومیٹر کے رقبے پر نام نہاد ’عظیم تر یروشلم‘ منصوبہ بنا رہا ہے، جس کا مقصد شہر کو یہودیت میں تبدیل کرنا، ایک نیا یہودی کردار تخلیق کرنا ہے۔ "گریٹر یروشلم” کے نام سے تیار کردہ اس منصوبے کے ذریعے القدس کی ثقافتی، تہذہبی اور اسلامی شناخت کومٹانا اور ان کی جگہ یہودیوں کی مذہبی علامات کو فروغ دینا ہے۔

اس مکروہ منصوبے کے لیے اسرائیلی ریاست نے اپنی تمام ریاستی مشینری لگا رکھی ہے اور القدس پرصہیونیت اور یہودیت کی تہذیبی یلغار مسلط ہے۔

قابض حکومت نے اس پروجیکٹ کے لیے تقریباً 20 ملین شیکل مختص کیے۔ منصوبے پرکام کرنے والے اسرائیلی اداروں میں یروشلم ڈیولپمنٹ اتھارٹی، قابض میونسپلٹی، بلدیہ کی "موریا” کمپنی، "ایلعاد” سیٹلمنٹ ایسوسی ایشن ، وزارت القدس امور اور وزارت سیاحت جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔

منصوبے کے مطابق یہ کیبل کارمئی 2023 میں باقاعدہ آپریشن جائے گی۔ یہ پل پیدل چلنے والوں کو یروشلم کے مختلف محلوں کے درمیان سے گذرنے کی سہولت دے گا اور پرانے شہر اور دیوار براق تک آباد کاروں کی رسائی کو آسان بنائے گا۔

یہودی بائبلی چھاپ

یروشلم پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار محمد جاد اللہ نے کہا ہے وادی الربابہ کی قدرتی اور مورفولوجیکل خصوصیات نمایاں طور پر تبدیل کردی گئی ہیں” انہوں نے توجہ دلائی "پُل کے نیچے شہر میں تیزی سےنمو پانے والے غیر ملکی پھل دار پودے لگائے ہیں جو کم وقت میں پھل دیتے ہیں۔ اس کا مقصد ایک نیا یہودی بیانیہ تخلیق کرنا ہے۔

الجاداللہ نے وضاحت کی اس منصوبے کی خاطر محلے میں قابض حکام کی طرف سے بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن میں اس جگہ کا جغرافیہ تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔ اس  کے لیے اسرائیلی بلدیہ نے دیواریں تعمیر کیں، خیمے لگائے، اور علاقے میں سرنگیں کھودنا شروع کیں اور پانی اور بجلی کے سٹیشن قائم کیے”۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ "اس منصوبے کا بنیادی مقصد غیر ملکی سیاحوں کو یہودی بیانیہ کے بارے میں قائل کرنا ہے۔ جب سیاح کیبل کار میں سوار ہوں گے تو انہیں اپنے اردگرد سبز باغات نظر آئیں گے جن میں بائبل کے یہودی کردار ہوں گے۔”

انہوں نے مزید کہا "یہ پل کا منصوبہ یروشلم کی مغربی سرحدوں پر واقع سلوان ٹاؤن کے علاقے میں آتا ہے۔ اس لیے قابض ریاست مسجد اقصیٰ اور پرانے شہر تک آباد کاروں کی رسائی کو فعال کرنا چاہتی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ "کیبل کار کے ذریعے پرانے شہر اورمسجد اقصیٰ کا فاصلہ کم ہوگا اور یہودی آباد کاروں کی زیادہ تعداد وہاں پر پہنچ سکے گی۔

آثار اور علامات میں تبدیلی

یروشلم کے محقق راسم عبیدات نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وادی ربابہ کے پڑوس میں کیبل کار یروشلم کے سب سے خطرناک آباد کاری کے منصوبوں میں سے ایک ہے اور یہ سیاحتی آباد کاری کا منصوبہ ہے۔

عبیدات نے القسطل نیٹ ورک کی طرف پر شائع ایک بیان میں کہا کہ "خطے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے عزائم بہت بڑے ہیں۔ قابض حکا نے پورے شہر سلوان کو نشانہ بنایا ہے، جس سے "ہولی بیسن”[حوض مقدس] کانام دیتے ہیں۔ اس میں پرانے شہر کے ارد گرد کی ہر چیز اور مسجد اقصیٰ کے قریب پہاڑوں کی تمام ڈھلوانیں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ "قابض حکا یروشلم کے پورے شہر کو یہودیت میں تبدیل کرنا ،اس کے جغرافیائی کردار اور مجموعی منظر نامے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس مرحلے کے دوران یہودی آباد کاری اور یہودیت کے منصوبوں کو نافذ کررہے ہیں۔

فلسطینی دانشور نے کہا کہ”قابض حکا نے وادی ربابہ کے پورے محلے کے قلب میں منصوبے شروع کیے۔ اسرائیلی نیچر اتھارٹی نے بڑے درخت لائے اور انہیں کیبل کار کے نیچے وادی میں لگایا۔ اس نے زمینوں کی خصوصیات کو بھی بدل دیا اور اراضی کو تلمودی بائبل کے حوالوں کے مطابق تیار کرکے القدس کی شناخت تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔

وادی الربابہ تقریباً 210 دونم کے رقبے پر محیط ہے اور اس کے رہائشی قابض حکام اور یہودی آباد کاروں کے خلاف نبرد آزما ہیں اور اپنی زمینوں پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی وقت ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک وادی ربابہ کے نام کا تعلق ہے تو اس کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کا بالائی حصہ تنگ ہے۔ یہ دھیرے دھیرے نیچے کی طرف چوڑی ہوتی جاتی ہے۔ یہ قدیم عربی موسیقی کے آلے الربابہ سے ملتا جلتا ہے۔

ایک بڑی سکیم کا حصہ

یروشلم کے امور کے ایک ماہر فخری ابو دیاب نے خبردار کیا ہے کہ "وادی الربابہ کا علاقہ مسجد اقصیٰ کے ارد گرد بائبل کے باغات میں قابض ریاست کے منصوبے کا ایک بڑا حصہ ہے۔”

ابو دیاب نے نشاندہی کی کہ "قابض ریاست تلمودی اور بائبل کے باغات کے ذریعے مسجد اقصیٰ کا گلا گھونٹنا چاہتی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے آس پاس کے منظر کو تبدیل کرنا، علاقے کی نوعیت کو قدرتی انداز میں تبدیل کرنا تاکہ مسجد اقصیٰ کی طرف آنے والے ہرشخص کی یہودی نظریات کے مطابق برین واشنگ کی جا سکے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ "اس منصوبے کا بنیادی مقصد علاقے کی شناخت کو تبدیل کرنا اور یروشلم کے باشندوں کی زمینوں پر اپنا تسلط قائم کرنا اور انہیں ان سے فائدہ اٹھانے سے روکنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "قابض حکام اس منصوبے میں اس لیے بھی دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ یہ سب سے خطرناک آباد کاری کے منصوبوں میں سے ایک ہے، جو قابض ریاست کی خواہشات کو پورا کرتا ہے۔ یہ یروشلم شہر کے پورے مہذب چہرے کو تبدیل کرنے کے منصوبوں میں شامل ہے۔

خطے میں یہودیوں کےفنگرپرنٹ کے صہیونی اقدامات میں تیزی کے باوجود؛ اس کے عرب ثقافتی ورثے کو چھیننے کے لیے، اور مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کے منصوبوں کی پٹی سے گھیرنے کے لیے، یروشلم کے باشندے متفقہ طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ قبضے کی ناک کے باوجود یروشلم شہر کی عرب-اسلامی شناخت موجود اور باقی رہے گی۔

بشکریہ  مرکز اطلاعات فلسطین محفوظ ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے