مسجد حرام کے مؤذن علی احمد ملا کی مترنم آواز گذشتہ 45 برسوں سے فرزندان توحید کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ منفرد آواز اور حجازی ادائی کے بلند آہنگ انداز میں ریکارڈ کردہ ان کی اذان کے کروڑوں نسخے چہار عالم اسلام میں گونج رہے ہیں۔ ’’بلال حرم‘‘ کا لقب پانے والے علی احمد ملا 1436ھ سے مسجد حرام میں مؤذنین کے پینل کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

شيخ المؤذنين مکہ کی سوق اللیل کالونی میں 1366ھ بمطابق 1945ع کو پیدا ہوئے۔اذان سے خصوصی لگاؤ اور تعلق کی وجہ سے آپ کا خاندان شہرت رکھتا تھا۔ شیخ کے آبا واجداد مسجد حرام میں اذان کا اہتمام کیا کرتے تھے اور ان کی بڑی تعداد مسجد حرام میں مؤذن کے فرائض انجام دیتی تھی۔ شیخ ملا نے 1975 میں مؤذن کے طور پر خدمات انجام دینا شروع کیں۔

اپنے کزن الشیخ عبد المالك الملا کی رحلت کے بعد وہ مؤذنین کی مجلس کے سربراہ مقرر ہو گئے۔ الشيخ عبد المالك الملا بھی کا شمار بھی مسجد حرام کے مشہور مؤذنین اور مکبرین میں ہوتا تھا۔ الشیخ علی احمد ملا 45 برسوں سے عالم اسلام کو اپنی مترنم آواز میں اذان سے مسحور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی لہروں والی منفرد آواز میں ریکارڈ شدہ اذان عالم اسلام میں بڑے شوق ومحبت سے سنی جاتی ہیں اور متعدد مؤذن ان کے لہجے کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

مملکت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘‘واس‘‘ کے مطابق الشیخ ملا نے الشیخ عاشور کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے اور پھر ابتدائی تعلیم حرم مکی میں مقام سعی کے اندر قائم الرحمانیہ پرائمری سکول سے حاصل کی۔ انہوں نے چوتھی اور پانچویں جماعتیں جدہ کے الثغر ماڈل سکول سے پاس کیں اور پھر مزید تعلیم کے لئے آرٹ ایجوکیشن ماڈل انسٹی ٹیوٹ تشریف لے گئے۔ وہاں تین برس تعلیم کے بعد 1931 1390/ھ ڈپلومہ ان آرٹ ایجوکیشن اور بعد ازاں آپ نے آرٹ ایجوکیشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

مسجد حرام میں بطور مؤذن اپنی تقرری کی کہانی سناتے ہوئے الشیخ علی کا کہنا ہے ’’کہ مسجد حرام میں مکبر اور مؤذن کے منصب کے لئے چناؤ سے متعلق خبر میری زندگی کی سب بڑی خوشخبری تھی۔ یہ اعزاز مجھے 1395ھ کو ملا، میں نے باب الزیادہ کے مینار سے سب سے پہلی اذان فجر کی نماز کے لیے دی، یہ اذان مائکرو فون پر نہیں تھی، جسے صرف مینار کے نیچے بیٹھے لوگ سن سکتے تھے۔ پھر میں باب المحکمہ کے مینار سے اذان دینے کا لگا۔

اپنے لئے ’’بلال حرم‘‘ کا لقب ملنے پر ہونے والی مسرت الشیخ علی کے چہرے پر نمایاں تھی۔ ’’یہ لقب مجھے بہت پیارا لگتا ہے۔ مجھے یہ لقب برطانیہ میں ملا جب میں حکومت کی مالی معاونت سے برطانیہ میں تعمیر ہونے والی متعدد مساجد کے افتتاح کے لیے گیا۔ ان پروگرامات کی کوریج سے متعلق اخبارات میں چھپنے والی خبروں میں مجھے بلال حرم کے طور پر متعارف کرایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مکی اذان اور مدنی اذان کی اور مخارج حروف کی ادائیگی مختلف ہوتی ہے۔ حرم مکی کے مؤذنین میں سب کا منفرد اور جداگانہ انداز انہیں دوسروں سے ممتاز بناتا ہے۔ مکی مؤذنین کی آواز میں گھن گرج اور قوت پائی جاتی ہے جبکہ مدنیہ کے مؤذنین کی آواز میں نرمی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ تاہم تمام مؤذنین کی آوازیں ایک جیسی ہیں، ان میں کوئی خاص فرق نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے