سپریم کورٹ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو کالعدام قرار دے دیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جاری لاجر بینچ نے پنجاب میں 14 مئی کو ہی الیکشن کروانے پر اتفاق کیا اور فیصلہ سنایا کہ الیکشن کے لئے صدر کی دی ہوئی تاریخ ہر الیکشن ہوں گے اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں ہے کہ وہ دی گئی تاریخ کو آگے بڑھائے الیکشن کمییشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے حکومت، پی ٹی آئی، ای سی پی اور دیگر سمیت تمام فریقین کو سننے کے بعد آج فیصلہ محفوظ کیا تھا جس کو آج سنا دیا گیا ہے ۔

اس کیس کی سماعت جو ایک ہفتے تک جاری رہی اس وقت بڑا ڈرامہ دیکھنے میں آیا جب اصل پانچ رکنی بینچ کے دو ججوں جسٹس جمال خان مندوخیل اور امین الدین خان نے کیس کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کی درخواست پر کارروائی کے لیے خود، جسٹس احسن اور جسٹس اختر پر مشتمل بینچ تشکیل دیا۔

اس سے پہلے آج، حکومت نے اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) منصور اعوان کے ذریعے ایک بیان جمع کرایا، جس میں کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست کی گئی۔ اس نے پی ٹی آئی کی درخواست کو یکم مارچ کو سپریم کورٹ کے جاری کردہ “4-3” کے حکم کی روشنی میں خارج کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

عدالت عظمیٰ نے، 3-2 کے فیصلے میں، یکم مارچ کو فیصلہ دیا تھا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب – جو دونوں جنوری میں صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے بعد سے نگراں حکومتوں کے تحت ہیں – 90 دنوں کے اندر کرائے جائیں۔

تاہم، حکومت نے عدالتی ہدایات سے اختلاف کرتے ہوئے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے بعد فیصلے کو 4-3 قرار دیتے ہوئے – جو ان چار ججوں میں سے تھے جنہوں نے 23 فروری کے حکم میں اضافی نوٹ لکھے تھے، نے اعتراض اٹھایا تھا۔ بنچ کی تشکیل کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس کی طرف سے عدالت عظمیٰ کے ازخود دائرہ اختیار کی درخواست پر۔

تاہم، چیف جسٹس نے فل کورٹ کے لیے حکومت کی درخواست کو مسترد کر دیا اور اس کے بجائے یہ تجویز دی کہ لارجر بینچ کی درخواست کی جا سکتی ہے۔

آج سماعت کے دوران وزارت خزانہ اور دفاع کے سیکرٹریز نے عدالت کو بریفنگ دی اور اپنی متعلقہ رپورٹس پیش کیں۔

فیصلے کا خیرمقدم

پاکستان تحریکِ انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے آج نظریۂ ضرورت کو دفن کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب ایسا سیاسی ماحول پیدا کرنا ہے جس میں صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔

‘انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے’

سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں صرف انصاف نہیں بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اس سے پہلے بھی ایسا فیصلہ دے چکی ہے جس کی وجہ سے پنجاب میں حالات خراب ہوئے۔ اب دوبارہ ایسا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے جس سے ملک میں افراتفری پھیلے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو اس معاملے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالتی فیصلے سے قبل ہی حکومت کی جانب سے اس طرح کے اشارے مل رہے تھے کہ” قوم الیکشن التوا کے معاملے پر فل کورٹ کا فیصلہ ہی تسلیم کرے ۔گی۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پیر کو پارلیمنٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس فل کورٹ اجلاس بلائیں تو اس کا کیا گیا ہر فیصلہ قوم کے لیے قابلِ قبول ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے