پاکستان کی وزارتِ تجارت نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی تجارت نہیں ہوئی۔ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ نہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی پاکستان، اسرائیل کے ساتھ تجارت کرتا ہے۔

حال ہی میں پاکستانی نژاد یہودی فشیل بن خالد نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار پاکستانی غذائی اشیا کی پہلی کھیپ اسرائیلی مارکیٹوں میں برآمد کی ہے جس میں کھجور، خشک میوہ جات اور بعض مسالے بھی شامل ہیں۔

فشیل بن خالد نے کہا تھا کہ یہ مصنوعات برآمد کرنے سے قبل انہوں نے اسرائیلی تاجروں سے دبئی اور جرمنی میں غذائی اشیا کی نمائشوں پر کئی بار ملاقاتیں کیں اور انہیں اس کی خریداری پر قائل کیا۔

فیشل بن خالد کی جانب سے یہ معلومات سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر تبصرے ہونےلگے تھے کہ پاکستان سے اسرائیل تجارت ہو رہی ہے۔

وزارت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، اسرائیل کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں ممالک کے درمیان بینکنگ تعلقات ہیں۔

بیان کے مطابق پاکستانی کسٹم نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان سے اسرائیل کو کوئی برآمدات نہیں کی گئیں۔

وزارتِ تجارت کا جاری کردہ بیان میں مزید کہنا ہے کہ پاکستانی مصنوعات اگر کسی تیسرے ملک کے ذریعے کسی ملک کو برآمد کی جاتی ہیں تو اسے پاکستان سے کی جانے والی برآمدات نہیں کہا جا سکتا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ برآمدات براہ راست اسرائیل کو نہیں بھیجی گئیں اور نہ ہی پاکستان کے کسی بینک میں ادائیگی وصول ہوئی۔

وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ اسے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت کہنا گمراہ کن ہے اور حقیقت میں درست نہیں۔

ملا جلا ردعمل

عمران خان کی حکومت میں انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے سوال اٹھایا ہے کہ ایک پاکستانی کیسے براہ راست اسرائیل کو چیزیں فروخت کر سکتا ہے، لیکن پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری اپنی ہی حکومت میں اسرائیل کے لیے خصوصی پاسپورٹ کا اجرا بھول گئیں۔

شیریں مزاری بھول گئیں کہ فیشل بن خالد کو 2019 میں عمران خان کی حکومت نے اسرائیل جانے کے لیے خصوصی پاسپورٹ جاری کیا تھا، اسی دور میں پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی اسما حدید اسرائیل کے حق میں تقریر کر چکی تھیں۔

ادھر تحریک انصاف کے اور رہنما بابر اعوان نے اسرائیل کے ساتھ تجارت کو بانیاں پاکستان کے اسرائیل سے متعلق مسلمہ موقف کی خلاف ورزی قرار دیا۔

دریں اثنا وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے نمائندہ خصوصی حافظ طاہر محمود اشرفی نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط سے متعلق میڈیا ایک حصے میں گردش کرنے والی افواہ نما خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے ’’کہ پاکستان کے اسرائیل سے تجارتی تعلقات قائم نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش ہو رہی ہے۔‘‘

ایک بیان میں طاہر اشرفی نے کہا کہ پاكستان كے اسرائيل سے تجارتی تعلقات کبھی نہیں رہے، صرف سياسی مقاصد كے لیے متفقہ مؤقف كو متنازع نہ بنايا جائے۔

نمائندہ خصوصی کے مطابق ایک پاكستانی يہودی کو عمران خان كے دور حكومت ميں اسرائيل جانےكی اجازت دی گئی تھی۔ پاكستانی يہودی نے ایک تیسرے ملک سے پاكستانی اشياء اسرائيل بھیجیں، اس سے متعلق وزارت تجارت یا خارجہ سے این او سی سامنے نہیں آیا ہے، نہ ہی ایسی اطلاع ہے کہ اس کی سرکاری طور پر اجازت دی گئی ہے۔

طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ یہ کام پاکستانیوں کے لیے قابل تشویش تھا، دکھ کی بات ہے اسلامیاں پاکستان کے متقفہ موقف پر کچھ حلقوں نے سیاست شروع کر دی، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔

خیال رہے کہ ایک غیر ملکی ویب گاہ نے ایک پاکستانی یہودی کے حوالے سے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس کے اسرائیل کے ساتھ کاروباری روابط ہیں اور اس نے اسرائیل کو خشک میوہ جات اور مصالحہ جات فروخت کیے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے