سعودی عرب میں فلکیاتی رصد گاہیں، درجنوں دوربینیں اور فلکیات سے دلچسپی رکھنے والے سینکڑوں افراد اس سال 1444ھ کے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے چاند کی رویت میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
سعودی عرب میں پہلی فلکیاتی رصدگاہ 1948ء میں مکہ مکرمہ میں شاہ عبدالعزیز کے دور میں جبل ابو قبیس پر قائم کی گئی تھی اور شاہ سعود نے اس کا سامان عطیہ کیا تھا۔ رصد گاہ کا قیام الشیخ محمد عبدالرزاق حمزہ کا آئیڈیا تھا۔ یہ رصد گاہ کئی سال قبل مکہ مکرمہ کے کلاک ٹاور میں منتقل ہوئی تھی۔
بعض تاریخی مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں جدت سے پہلے مکہ کے قاضی یا اس کے نائب اور بعض گواہ رویت ہلال یقینی بنانے کے لیے کوہ ابی قبیس کے اس مقام پر چڑھتے تھے۔ اگر وہ رمضان یا عید کا چاند دیکھ لیتےتو ان میں سے ایک پہاڑ کی چوٹی پرچڑھ کر سفید کپڑا لہراتا۔ اسے دیکھ کر مکہ کے قلعوں موجود ایلچی رویت ہلال کے اعلان کے لیے توپیں چلا دیتے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب میں بہت سی فلکیاتی رصد گاہیں ہیں جن میں سب سے نمایاں سدیر، تمیر اور مکہ مکرمہ کی رصدگاہیں مشہور ہیں، جو کہ قدیم ترین رصد گاہوں میں شماری کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ریاض، مدینہ منورہ ، قصیم، ظہران، شقراء، حائل اور تبوک میں چاند دیکھا جاتا ہے۔
دوسری طرف وزارت انصاف نے چاند دیکھنے کے عمل کو خودکار اور سیلف کنٹرول کرنے کے لیے رویت ہلال کی خاطر کار کے لیے ایک الیکٹرانک نظام شروع کیا ہے۔
اس نظام کے ذریعے وزارت انصاف نے بصری نشریاتی ٹیکنالوجی سےسے عدالتوں اور رصد گاہوں کے درمیان براہ راست رابطے کی خصوصیت فراہم کی ہیں۔ اس سروس کا مقصد ایک مضبوط الیکٹرانک نظام کے ذریعے بصری ڈیٹا کے ماخذ کو یکجا کرنا ہے۔ سعودی عرب میں رویت ہلال کے لیے پہلی رصدگاہ کب قائم کی گئی؟