پشاور: انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا نے کہا ہے کہ پشاور دھماکے میں ملوث دہشتگردوں کے نیٹ ورک کے   قریب پہنچ چکے ہیں، حملے میں ملوث خودکش بمبار نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا نے کہا کہ 1 ہزار سے زائد جوانوں کو اکٹھا کرکے ان سے گفتگو کی، کئی چیزوں کی وضاحت ضروری ہے، آفیشل بیان سے کنفیوژن دور ہوجائے گی اور ابہام پیدا نہیں ہوگا، ہم اپنے ایک ایک شہید کا بدلہ لیں گے، قربانیوں کو رائیگاں جانے نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس فورس تکلیف میں ہے، میں تین دن میں تین گھنٹے سویا ہوں، آئی جی سے لے کر سپاہی تک اذیت میں مبتلا ہیں، گزارش ہے کہ تکلیف میں اضافہ نہ کیا جائے، مرہم رکھا جائے، ہم بھی انسان ہیں، ہمارے بھی بچے ہیں، گھر بار ہے، ہم بے حس نہیں۔

آئی جی نے کہا کہ میرے بچوں کو اس دکھ کے وقت میں اکسانا درست نہیں، سازشی تھیوریوں سے جوانوں کے دکھ میں اضافہ کرکے احتجاج پر اکسایا جا رہا ہے، افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، نصب شدہ مواد کے دھماکہ کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں، زمین میں کوئی گڑھا یا چھت پر دھماکے کا کوئی نشان نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد سارے حقائق میڈیا کے سامنے رکھے جائیں گے، ہم اوروں کے لئے انصاف مہیا کرتے ہیں تو اپنے لئے بھی انصاف حاصل کریں گے، سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کے پاس ہے، جیو فینسنگ کا عمل جاری ہے، سیف سٹی پشاور میں نہیں اس لئے شہریوں کو درخواست کرکے فوٹیجز حاصل کی جا رہی ہیں۔

معظم جاہ انصاری نے بتایا کہ میں نے اس خودکش کو کیمرے میں دیکھ لیا ہے، کراس میچ بھی کر لیا ہے، خودکش حملہ آور پولیس کی یونیفارم میں تھا، اس نے ریگولرجیکٹ پہنی ہوئی تھی، اس نے سر پر ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور منہ پر ماسک لگایا ہوا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خودکش بمبار کی موٹرسائیکل ہمارے پاس آگئی ہے، انہوں نے انجن اور چیسز نمبر رگڑ کر مٹایا ہوا تھا، ہم نے اس کو بھی ٹریس کر لیا ہے، خودکش بمبار کی شناخت اور اس کے نیٹ ورک تک رسائی کا عمل جاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے