این جی اوز میں خواتین کے کام کا مسئلہ
تحریر: مستنصر حجازی
25 دسمبر 2022 کو وزارت اقتصادیات نے ایک حکم نامے کے ذریعے ملکی و غیر ملکی این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ حکم نامہ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین شرعی پردے کا خیال نہیں رکھتی تھیں، کئی جگہوں سے قابل اعتراض شکایات بھی موصول ہوئی تھیں۔ اس حکم نامے کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی انٹرنیشنل میڈیا نے اس مسئلے کو خوب ہائی لائٹ کیا، بلکہ آج ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی یہی خبر میڈیا میں گرم ہے۔ بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی رفاہی تنظیموں نے اس پابندی کی مذمت کی اور اسے امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے سے تعبیر کیا۔
این جی اوز کے کام کی اہمیت اور ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ این جی اوز اگر کسی ملک کے قوانین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سرگرمیاں جاری رکھیں گے تو اس کی حوصلہ افزائی ہی نہیں اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ریاست اور اس کے سکیورٹی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں یہ ادارے نہ صرف غربت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں بلکہ بالواسطہ متعلقہ ملک کی معاشی حالت کو مستحکم کرنے میں بھی کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ ہو یا این جی اوز میں خواتین کی کام کرنے پر پابندی کا موضوع۔ بین الاقوامی برادری افغانستان کے مخصوص حالات، یہاں کی ثقافت اور نفسیات کو یک سر انداز کرتے ہوئے تنقید کے نشتر چلاتی ہے۔اس سلسلے میں بیرونی دنیا امارت اسلامیہ سے ایسے اقدامات کی توقع رکھتی ہیں جو ان کی سیاسی سسٹم کی بنیادوں کو متزلزل کرتی ہے۔ اس حوالے سے امارت اسلامیہ کا سخت موقف افغان عوام کے جذبات کا ترجمان ہے۔ افغانستان کے عوام اس قدر خود دار ہیں کہ بھوک و افلاس برداشت کرتے ہیں مگر خواتین کے معاملے میں مخلوط نظام قبول کرنے کےلیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اس بات کے قطعی روادار نہیں ہیں کہ ان کی خواتین بلا کسی محرم کے این جی اوز اہل کاروں کے ساتھ کام پر جائے، یا محرم کے بغیر وہ کسی دفتر میں بیٹھ کر دفتری امور انجام دیں۔ یہ روایت بھی ہے اور ثقافت و تمدن بھی ہے۔ علاوہ ازیں امارت اسلامیہ نے خواتین کے کام پر کلی طور پر بھی پابندی نہیں لگائی۔ اگر واقعی این جی اوز میں خواتین کے کام کرنے کی اتنی ہی اہمیت ہے جسے بیان کیا جا رہا ہے تو افغانستان کے روایات کا خیال رکھتے ہوئے خواتین کے لیے الگ تنظیمیں بنائی جائیں تاکہ وہ کھل کر خدمت سرانجام دے سکیں۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ بات کافی وضاحت کے ساتھ بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امارت اسلامیہ کے اپنے سرکاری اداروں میں بھی خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے۔ خواتین اہل کار گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتی ہیں۔ بیرونی این جی اوز جو امارت اسلامیہ کے کنٹرول میں بھی نہیں ہیں، جہاں سے پچھلے ایک سال کے دوران کافی ساری شکایتیں بھی موصول ہوئی ہیں، میں خواتین شرعی پردے کا خیال نہیں رکھتیں جس کی وجہ سے انھیں کام سے روک دی گئیں۔
دنیا کے ہر ملک کو اپنی ثقافت، تہذیب و تمدن اور روایات عزیز ہیں۔ تمام ممالک بین الاقوامی اداروں کو ان سرگرمیوں کی اجازت دیتے ہیں جو ان ممالک کے مخصوص حالات و روایات سے میل کھاتے ہوں۔ اگر پوری دنیا میں ملکی قوانین و روایات کی پاس داری کا خیال رکھنے کی روایت ہے تو افغانستان میں اس روایت کے برقرار رکھنے پر واویلا کیوں کیا جارہا ہے؟ افغانوں کو اپنی روایات کے تحفظ کےلیے تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ اس سلسلے میں اگر واقعی دنیا افغانوں کے تعاون کرنا چاہتی ہے تو افغانوں کی روایت توڑنے کی قیمت پر تعاون نہ کرے بلکہ بلا کسی قیمت محض انسانی بنیادوں پر تعاون کرے تاکہ ان کی انسان دوستی کے دعوے سے ثابت ہوں۔

بشکریہ الامارہ اردو ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے