تحریر: مستنصر حجازی

گذشتہ ماہ امیر المومنین شیخ الحدیث مولانا ہبت اللہ اخندزادہ نے سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں کو حکم دیا کہ جرائم ثابت ہونے اور حدود کے تمام شرائط پورے ہونے پر مجرموں پر حدود جاری کیے جائیں۔ حکم کی تعمیل میں صوبہ قندہار میں پانچ، بامیان میں دو، صوبہ تخار میں 19، صوبہ لغمان میں دو، صوبہ لوگر میں 14 اور کابل میں 21 مجرموں کو شرعی سزائیں سنائی گئیں۔ اس کے علاوہ بدھ کو صوبہ فراہ میں قتل کے بدلے ایک مجرم کو قصاص کیا گیا۔ امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں یہ پہلا مجرم تھا جس پر قصاص کی سزا جاری کی گئی۔ جب یہ سزائیں دی جانے لگیں تو مغربی دنیا نے حسب معمول اس پر ایک طوفان کھڑا کیا۔ وہی رٹے رٹائے اعتراضات جو برسہا برس سے شرعی سزاؤں کے نفاذ پر وارد ہوتے آئے ہیں۔ شرعی سزاؤں کو وحشیانہ اور خود ساختہ انسانی حقوق کے منافی قرار دیے۔ شرعی سزاؤں پر اعتراضات کا سلسلہ صرف افغانستان میں نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں اگر کبھی حدود کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تو وہاں اسلامی حدود و تعزیرات کو غیر مؤثر بنانے کےلیے میڈیا کا سہارا لیا گیا اور ان پر وہی اعتراضات کیے گئے جو آج افغانستان میں کیے جا رہے ہیں۔
اصولی طور پر حدود کے حوالے سے تین باتیں سمجھ لینی چاہئیں۔ پہلی بات یہ کہ حدود کی تاکید کی وہی حیثیت ہے جو نماز، روزہ، حج اور زکوة کی ہے۔ قرآن مجید میں مذکورہ احکام کا تذکرہ جن صیغوں کے ساتھ کیا گیا ہے حدود کا تذکرہ بھی انہی صیغوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوة فرض ہے تو شرائط پورے ہونے پر زانی کو کوڑے مارنا اور شادی شدہ کو سنگ سار کرنا، چور کا ہاتھ کاٹنا اور قتل کے بدلے قصاص بھی فرض ہے۔ اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا قرآن کریم نے حدود سے تجاوز سے تعبیر کیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ قرآن کریم نے مجرموں کی جو سزائیں مقرر کی ہیں قیامت تک مجرموں کی وہی سزائیں اتنی ہی مقدار میں ہوں گی۔ کسی اتھارٹی کو کوئی اختیار نہیں کہ اس میں رد و بدل یا اس میں کمی بیشی کرے۔ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو قیامت تک یہی سزا ہوگی۔ اس کے بدلے قید یا کوئی دوسری سزا نہیں دی جاسکتی۔ پاک دامن مرد یا عورت پر تہمت لگانے کی سزا 80 کوڑے مارنے ہیں تو اس سزا کی ماہیت اور نوعیت کو تبدیل کرنے کا اختیار کسی اتھارٹی کے پاس نہیں ہے۔
تیسری اصولی بات یہ کہ شرعی سزائیں اسلامی ریاست کی شرعی عدالتیں دے سکتی ہیں۔ کسی پرائیویٹ گروہ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے مجرم کو سزا دیں۔ کیوں کہ اس سے انارکی اور انتشار کی کیفیت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اور شریعت مطہرہ نے سزائیں ہی معاشرے سے ہر قسم کے فساد و انتشار کے سد باب کےلیے مقرر کی ہیں۔
○ شرعی سزاؤں پر اعتراضات کی فکری بنیاد:۔
مسلم دنیا میں شرعی سزاؤں پر اعتراضات کرنے اور اسے وحشیانہ و ظالمانہ قرار دینے کی باتیں ہر کچھ عرصہ بعد کی جاتی ہیں۔ ابھی کل ہی صوبہ فراہ میں ایک شخص کے قتل کے بدلے قصاص پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مذمت کی۔ ان تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ سزائے موت کے اسلامی طریقہ کار کو ختم کرکے پھانسی پر عمل درآمد کیا جائے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اعتراض اور غیر ضروری تشویش کی فکری بنیاد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا دفعہ نمبر 5 ہے۔ اس دفعہ میں لکھا ہے کہ: "کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ، انسانیت سوز، یا ذلیل سلوک، یا سزا نہیں دی جائے گی”
اب ان چند الفاظ میں اسلام کے پورے نظام فوج داری پر قد غن لگا کر اسے بہ یک جنبش قلم وحشیانہ، انسانیت سوز اور ذلیل کرنے والا قرار دے کر اسلامی سزاؤں کو ممنوع قرار دیے۔
اسلام کے فلسفہ جرم و سزا کا اگر گہرا مطالعہ کیا جائے اور جرم و سزا کے سلسلے میں اسلام کے مزاج کو جاننے کی کوشش کی جائے تو شاید کوئی سوال اور تشویش باقی نہ رہے۔ اسلام ہی نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل اور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت بچانے سے تعبیر کیا ہے۔ اسلام محض کسی معمولی جرم کے بدلے انسان کے قتل کا روادار نہیں ہے، بلکہ آخری حد تک انسانی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ صرف زنا کے ثبوت کےلیے رجم کی سزا جاری کرنے کی شرائط کا مطالعہ کافی ہے۔ رجم بلا شبہ ایک خوف ناک سزا ہے۔ مگر یہ تب جاری کی جائے گی جب دو شرائط پائی جائے۔ پہلی شرط مجرم کا اقرار جرم۔ دوسری شرط جرم کے ثبوت کےلیے چار گواہوں کی موجودگی۔ اقرار جرم سے پہلے قاضی مجرم کو روکے گا اور توبہ کرنے کی تلقین کرے گا۔ مگر پھر بھی اگر وہ اعتراف کرے تو چار ثقہ گواہ پیش کیے جائیں گے۔ اگر چار کی تعداد پوری نہ ہوئی تو مجرم کی بجائے الزام لگانے والے پر حد قذف یعنی (تہمت لگانے کی حد) جاری کی جائے گی۔ اگر کسی طرح چار ثقہ گواہ پیش کر دیے گئے تو پھر اسے سنگ سار کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجرم پیشہ ور ہے۔ انہوں نے لوگوں کی موجودگی کو بھی نظر انداز کرکے اس قبیح عمل کا ارتکاب کیا۔ اگر مجرم اس قدر پیشہ ور اور عادی ہے تو ایسے شخص کو سزا دینا صرف ان کے جرم کی سزا نہیں ہے بلکہ انہوں نے معاشرہ کو گدلا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی شخص سیہ کاری پر اس قدر جری ہے تو اسے واقعی ایسی سزا دینی چاہیے کہ جس سے رونگھٹے کھڑے ہوجائے۔
سنگ سار کرنے کی یہ سزا صرف اسلام ہی نے نہیں بلکہ سابقہ ادیان میں بھی سنگ سار کرنے کی سزا تھی، بلکہ سابقہ ادیان میں تو معمولی جرائم پر سنگ سار کرنے کی سزا کا تصور موجود ہے۔
جس کی تفصیل کےلیے مضمون کا دامن تنگ ہے۔
افغانستان کے صوبہ فراہ میں ایک قتل کے بدلے قاتل کو قصاص کرنے پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں چیں بہ جبیں ہیں۔ حالاں کہ قاتل کو اسی طریقے سے سزا دی گئی جس طریقے سے مغربی ممالک خصوصا امریکا اور برطانیہ میں دی جاتی ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں زہریلی انجیکشن لگانے کے علاوہ مجرم کو گولی سے مار دیا جاتا ہے اور اس کےلیے باقاعدہ فائرنگ سکواڈ مقرر ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ مجرم کو سر عام کیوں سزا دی گئی؟ اس سلسلے میں معاشرے کی تطہیر کےلیے اسلام کے نظام فوجداری کا تقاضا ہے کہ اعتراف جرم کے بعد مجرم کو نشان عبرت بن جانا چاہیے۔ چناں چہ زنا کے سزا سے متعلق قرآن مجید کا فرمان ہے: ولْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ "اور انہیں سزا دینے کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود ہونا چاہیے۔” یعنی سزا سر عام ہو، لوگوں کی موجودگی میں ہو تاکہ وہ زنا کی سخت سزا دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔

شرعی سزاؤں کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہونے کے اسباب:۔

مغرب یا مغربی فکر و فلسفہ سے متاثرین کے اعتراضات کے مختلف اسباب ہیں۔ منجملہ ان میں سے ایک سبب دینی علوم، اسلام کے فوجداری قوانین اور اسلام کے عمومی مزاج سے ناواقفیت ہے۔ بس لوگوں نے سرسری طور پر یہ باتیں سن رکھی ہیں کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا زانی کی سزا رجم اور پاک دامن مرد و عورت پر تہمت لگانے کی سزا 80 کوڑے لگانے ہیں۔ نہ ان سزاؤں کی حکمتوں کا علم ہوتا ہے اور نہ سزا کی سنگینی کا کچھ پتہ ہوتا ہے۔ دینی علوم سے ناواقفیت کی وجہ سے ایسے عامیانہ تبصرے صرف شرعی سزاؤں کے بارے میں نہیں کیے جاتے، بلکہ وہ تمام احکام جو عصر حاضر کے اباحیت پسند طبیعتوں پر گراں گزرتے ہیں تختہ مشق بناتے ہیں۔
شرعی سزاؤں پر اعتراضات کرنے کا دوسرا سبب مغرب سے مرعوبیت ہے۔ مغرب سے مرعوب ذہنیت کےلیے ہر وہ چیز قابل قبول ہے جو مغرب کےلیے قابل قبول ہو اور ہر وہ چیز قابل رد ہے جو مغرب کےلیے قابل رد ہو۔ اب مغربی ذہنیت کے ذریعے مغربی فکر و فلسفہ کو تو جانچا جاسکتا ہے مگر مغربی ذہنیت سے اسلامی احکامات کو پرکھا جائے گا تو اس کے نقصانات واضح ہیں۔
شرعی سزاؤں پر اعتراضات کرنے کا تیسرا سبب یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں کی نظر بس سزا ہی پر ٹکی رہتی ہے۔ جرم کی سنگینی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بہت بڑے نقصان کو یک سر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اگر جرم کی سنگینی بھی ملحوظ خاطر ہو اور اس سے معاشرے میں بگاڑ مد نظر ہو تو سزا عین حکمت ہے۔
اسلام نے جرائم اور سزاؤں میں حد درجہ توازن برقرار رکھا ہے۔ جرم جس درجے کا ہے سزا اسی درجے کی مقرر کی ہے۔ اگر جرم سنگین ہے اور سزا معمولی ہو تو اس سے معاشرے کی تطہیر کا مقصد پورا نہیں ہوگا اور اگر جرم معمولی ہے اور سزا زیادہ ہے تو یہ ظلم کے زمرے میں آتا ہے جو اسلام کے عادلانہ نظام کے خلاف ہے۔

بشکریہ الامارہ اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے