کراچی: معروف عالم دین مفتی رفیع عثمانی 86 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر تھے، وہ کافی عرصے سے علیل تھے، مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے، مفتی محمد رفیع عثمانی دارالمدارس العربیہ کے سرپرست اعلیٰ تھے۔

دوسری طرف وزیراعظم، صدر، جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان، جسٹس ریٹائرڈ مولانا تقی عثمانی، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب، گورنر سندھ کامران ٹیسوری، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ، مولانا اورنگزیب فاروقی سمیت دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مفتی اعظم پاکستان صدر دارالعلوم کراچی مفتی محمد رفیع عثمانی کی وفات پر دلی رنج وغم کا اظہارکیا ہے۔

گورنر سندھ 

دوسری طرف گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے معروف عالم دین مفتی محمد رفیع عثمانی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ مفتی محمد رفیع عثمانی کا انتقال نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے لئے عظیم نقصان ہے، دینی تعلیمات کے فروغ کے لئے مفتی صاحب کی خدمات بے مثال ہیں، رفیع عثمانی کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلا عرصہ تک پر نہیں ہوسکے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ 

اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ مفتی رفیع عثمانی کے انتقال پر دکھ ہوا، ان کا انتقال اسلام کیلئے عظیم سانحہ ہے،  مفتی صاحب کی دینی خدمات لازوال ہیں، اللہ سے دعا ہے انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

وزیراعلیٰ پنجاب :۔

اُدھر وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے معروف عالم دین مفتی رفیع عثمانی کے انتقال پر رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی دینی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔

مصطفیٰ کمال:۔

پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے مفتی رفیع عثمانی کے انتقال پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رحلت سے دنیا جاری فیض سے محروم ہوگئی ہے، دین کے لیے انکی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

فضل الرحمان

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان ایک معتدل ،بلند پایہ ،فقیہ اور مفتی سے محروم ہوگیا، مفتی رفیع عثمانی کی گرانقدر علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مفتی صاحب مرحوم متوازن افکار و نظریات کے حامل تھے، جنہوں نے اپنی تصانیف اور خطبات سے اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی، جدید فقہی مسائل ہمیشہ صائب موقف دیا۔

سفر زندگی

محمد رفیع عثمانی 21 جولائی 1936ء – 18 نومبر 2022ء) ایک پاکستانی مسلمان عالم، فقیہ اور مصنف تھے، جنھوں نے دار العلوم کراچی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ دارالعلوم دیوبند، جامعہ پنجاب اور دار العلوم کراچی کے فاضل تھے۔ احکامِ زکوٰۃ، التعلیقات النافعۃ علی فتح الملہم، اسلام میں عورت کی حکمرانی اور نوادر الفقہ جیسی کتابیں ان کی تصانیف میں شامل ہیں۔ وہ جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ ممبر، نائب صدر اور وفاق المدارس العربیہ کی مجلس انتظامیہ کے رکن تھے۔ وہ محمد تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔

خاندانی پس منظر و ابتدائی زندگی

محمد رفیع عثمانی 21 جولائی 1936ء کو اتر پردیش، بھارت کے قصبۂ دیوبند کے خانوادۂ عثمانی میں پیدا ہوئے۔ان کا نام اشرف علی تھانوی نے محمد رفیع رکھا۔عثمانی کے والد محمد شفیع دیوبندی دار العلوم دیوبند کے مفتی اعظم اور تحریک پاکستان کی سرخیل شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ محمد تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔

تعلیمی زندگی

عثمانی نے نصف قرآن دار العلوم دیوبند میں حفظ کیا، اور یکم مئی 1948ء کو ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔انھوں نے آرام باغ میں مسجد باب الاسلام میں قرآن حفظ مکمل کیا، اور آخری سبق فلسطینی مفتی اعظم امین الحسینی سے پڑھا۔ 1951ء میں دار العلوم کراچی میں ان کا داخلہ ہوا، اور 1960ء میں انھوں نے روایتی "درس نظامی” میں سند فضیلت حاصل کی۔ 1378 ھ میں، انھوں نے جامعہ پنجاب سے "مولوی” اور "منشی” (جسے "مولوی فاضل” بھی کہا جاتا ہے) کے امتحانات پاس کیے۔ انھوں نے 1960ء میں دار العلوم کراچی سے تخصص فی الافتاء کی سند حاصل کی۔

عثمانی نے صحیح بخاری رشید احمد لدھیانوی سے، صحیح مسلم اکبر علی سہارنپوری سے، موطأ امام محمد اور سنن نسائی سحبان محمود کے ساتھ، سنن ابو داؤد رعایت اللہ سے اور جامع ترمذی سلیم اللہ خان سے پڑھی۔اس نے محمد حقیق سے سنن ابن ماجہ کے بعض حصے پڑھے، اور تکمیل ریاضت اللہ نے کروائی۔ انھیں حسن بن محمد المشاط، محمد ادریس کاندھلوی، محمد شفیع دیوبندی، محمد طیب قاسمی، محمد زکریا کاندھلوی اور ظفر احمد عثمانی سے اجازتِ حدیث حاصل تھی۔

عملی زندگی

عثمانی کل پاک علماء کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل، رویت ہلال کمیٹی، پاکستان اور حکومت سندھ کی زکوٰۃ کونسل کے رکن تھے۔وہ شرعی عدالتی بنچ، عدالت عظمیٰ پاکستان کے مشیر تھے۔ انھوں نے وفاق المدارس العربیہ کی مجلس ممتحنہ کے رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔وہ این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ کے رکن، اور وفاق المدارس المدارس العربیہ کی مجلس منتظمہ کے رکن تھے۔ انھوں نے عبد الحئی عارفی کے بعد دار العلوم کراچی کے رئیس الجامعہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

دار العلوم کراچی میں عثمانی نے 1380 ھ سے 1390ھ تک درس نظامی سے متعلق تمام کتابیں پڑھائیں۔ 1391ھ سے انھوں نے مدرسہ میں حدیث اور افتاء کے علوم پڑھائے۔انھوں نے دار العلوم کراچی میں صحیح مسلم کا درس بھی دیا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے آخر میں، عثمانی نے سوویت کے خلاف جہاد میں جماعت حرکت الجہاد الاسلامی (ایچ یو جے آئی) کے ساتھ حصہ لیا۔ انھوں نے ہمیشہ طلباء کو سیاست سے دور رہنے کو کہا۔

مفتی اعظم

۔1995ء مفتی اعظم پاکستان ولی حسن ٹونکی کے انتقال کے بعد اعلیٰ ترین علمی خدمات پر مفتی اعظم پاکستان کا عہدہ عثمانی کے سپرد کیا گیا تھا۔

قلمی خدمات

عثمانی نے عربی اور اردو میں تقریباً 27 کتابیں تصنیف کیں۔ 1988ء سے 1991ء تک انھوں نے ایچ یو جے آئی سے متعلق اپنی یادوں کو دارالعلوم کراچی کے اردو ماہنامہ البلاغ کے علاوہ اردو روزنامہ جنگ اور ماہنامہ الارشاد میں شائع کروایا، جو بعد میں ’’یہ تیرے پر اسرار بندے‘‘ کے عنوان سے مستقل کتاب میں بھی شائع ہوئیں۔ ان کی بعض تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:۔

۔احکام زکوٰۃ

علامات قیامت اور نزول مسیح

التعلیقات النافعۃ علی فتح الملہم

بیع الوفا

یورپ کے تین معاشی نظام، جاگیرداری، سرمایہ داری، اشتراکیت اور ان کا تاریخی پسِ منظر؛ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ

"The three systems of economics in Europe: feudalism, capitalism, socialism and their historical background”

کے نام سے شائع ہوئے ۔

علم الصیغہ، یہ کتاب بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مدارس میں "درس نظامی” کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہے۔

اسلام میں عورت کی حکمرانی

حیات مفتی اعظم

کتابات حدیث عہد رسالت و عہد صحابہ میں

میرے مرشد حضرت عارفی

نوادر الفقہ

وفات

حضرت کا انتقال طویل علالت کے بعد 18 نومبر 2022ء کو کراچی میں ہوا

نماز جنازہ 

انکی نماز جنازہ انشاء اللہ اتوار 20  نومبر 2022 ء کو ۹ بجے دارالعلوم کراچی میں ادا ہوگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے