بھارت کے قبضے اور انتظام کے نیچے متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی پولیس نے کشمیری صحافیوں اور ادیبوں کے گھر میں چھاپے مارے اور ان کے موبائل فونز ، کیمرے اور لیپ ٹاپس قبضے میں لے لیے ہیں۔ صحافیوں کے گھروں اور دفاتر میں یہ چھاپے پوری وادی کشمیر میں مارے گئے ہیں۔
پولیس کے ایک اعلیٰ ذمہ دار کے بقول یہ چھاپے ان آن لائن پوسٹس کی وجہ سے مارے گئے ہیں جن میں کئی دوسرے صحافیوں کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔
1980 کی دہائی کے اواخر سے ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے ایک تحریک جاری ہے جسے دبانے کے لیے بھارت نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے یہاں فوج کی کئی لاکھ نفری تعینات کر رکھی ہے۔ تاہم کشمیریوں کے یہ تحریک اب بھی بھارت سے دبائی نہیں جا سکی ہے۔
بھارتی پولیس کے ذرائع کے مطابق نصف درجن صحافیوں کے گھروں میں رات کے وقت چھاپے مارے گئے ، ان میں ایک معروف ادیب گوہر گیلانی بھی شامل ہیں جن کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور ان کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ کو قبضے میں لیا۔
تاہم اس خبر کے لیے کشمیری ادیب اور معروف کشمیری صحافی کرالیاری اور دیگر کشمیری صحافیوں سے رد عمل لینے میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ جن کے گھروں پر اچانک چھاپے مارے گئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق صحافیوں کی تلاش میں یہ چھاپے تین اہم شہروں سرینگر، اننت ناگ اور کولگام میں کم از کم دس جگہوں پر مارے گئے ہیں۔
معلوم ہوا کہ اس دوران پولیس نے ان وکیلوں کے گھروں میں بھی ان کی تلاش میں چھاپے مارے ہیں جو آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے حامی ہیں یا ان کے مقدمات میں انہیں قانونی معاونت دیتے ہیں۔
ان چھاپوں کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چھاپے انہی صحافیوں ، وکیلوں اور ادیبوں کے گھروں میں مارے گئے ہیں جو بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے حامی ہیں اور بھارتی قبضے کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
پولیس کے ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارتی پولیس نے یہ چھاپے پچھلے ہفتے آن لائن ملنے والی دھمکیوں پر انسداد دہشت گردی کا مقدمہ درج کیے جانے کی بنیاد پر مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ آن لائن پوسٹس جنہیں مقدمے کا باعث بنایا گیا ہے ان میں بعض صحافیوں کو بھارتی آلہ کار قرار دیا ہے۔
اس کے بعد پانچ صحافیوں نے اپنے میڈیا ہاوسز سے استعفے بھی دے دیے ہیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ صحافیوں میں اس سے خوف کی فضا پیدا ہوئی ہے۔