بھارتی کی بحری فوج کے آٹھ سابق افسروں کو قطر میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کی یہ گرفتاری قطر کے خلاف اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں عمل میں لائی گئی ہے۔ جمعہ کے روز پہلی بار یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں ۔

اسرائیلی میڈیا نے ان اطلاعات کو سامنے لاتے ہوئے کہا ہے کہ ان مبینہ بھارتی جاسوس افسروں کو 70 روز پہلے گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم بعض بھارتی ذرائع ابلاغ نے ان گرفتاریوں کی وجہ جاسوسی ماننے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سابق نیوی افسران ایک کمپنی میں کے لیے کرتے تھے۔

ان کے بقول یہ خبریں پاکستانی سوشل میڈیا کی وجہ سے پھیلی ہیں کہ بھارتی بحری فوج کے افسران قطر میں بھی جاسوسی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس بارے میں بھارت کے بڑے اخبار ہندوستان ٹائمز نے بھی یہی موقف آگے بڑھا ہے کہ بھارتی بحریہ کے سابق آٹھ افسروں جاسوسی کا الزام غلط ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق یہ پاکستان کے سوشل میڈیا کی طرف سے پانی کو گدلا کرنے کی کوشش ہے۔ پاکستان کے بارے میں روایتی طور پر بھارتی میڈیا کا انداز حریفانہ رہتا ہے۔

واضح رہے پاکستان میں بھارت کی بحریہ کے ایک حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں کئی سال پہلے گرفتاری ہوئی تھی جو اب بھی پاکستان کی جیل میں سڑ رہا ہے۔

بھارت اس کلبھوشن یادیو کے جاسوسی اور دہشت گردی میں سالہا سال تک پاکستان میں ملوث رہنے کی بھی تردید کرتا ہے۔ تاہم کلبھوشن پر سنگین الزامات کے شواہد موجود ہونے کی وجہ عالمی عدالت انصاف سے رجوع کے باوجود بھارت اس کی رہائی کرانے میں ناکام ہے۔

اس تناظر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سوشل میڈیا نے غلط خبر دی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اور اسرائیلی میڈیا میں ان آٹھ بھارتی بحری افسروں کی گرفتاری کی خبروں کے لیے کافی دلچسپی ظاہر کی جارہی ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان سابق نیوی افسران کی گرفتاری 30 اگست کو ہوئی تھی۔ انہیں قطر حکام نے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے ۔ عام طور پر قید تنہائی میں ملکی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے مجرموں کو ہی رکھا جاتا ہے۔

تاہم بھارتی نیول افسروں کی رہائی کے لیے قطر حکومت سے بات کرنے کے لیے ماہ اکتوبر میں ایک اعلی سطح کا وفد قطر گیا تھا۔ لیکن اسے کوئی فوری کامیابی نہیں مل سکی تھی۔

واضح رہے قطر میں فٹ بال کے ورلڈ کپ میں اب محض چند دن باقی رہ گئے ہیں اور اس موقع پر بھارتیوں سمیت ہر ملک سے لوگوں نے بطور تماشائی قطر پہنچنا ہے۔ اس وجہ سے قطری حکام کافی سنجیدگی اور احتیاط کی بنیاد پر چیزوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے