تحریر: سیف العادل احرار

افغانستان کو کرہ ارض میں ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے، تاریخ کے مختلف ادوار میں استعماری قوتوں نے افغانستان پر چڑھائی کی ہے لیکن ہر بار انہیں شکست ہوئی ہے، چنگیز، انگریز، سوویت یونین اور امریکہ سمیت نیٹو کی شکست کی داستانیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں، نوے کی دہائی میں سوویت یونین کی شکست کے بعد جب ملک میں جہادی تنظیمیں باہم دست و گریبان ہوئیں اور فتنہ وفساد کا دور شروع ہوا تو اس وقت اللہ کے ایک ولی کامل نے مساجد اور مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کرام کو فساد کی سرکوبی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے تیار کرکے جہاد کا علم بلند کیا اور ملک سے فتنہ و فساد کا صفایا کر دیا، ملک میں مکمل اسلامی نظام نافذ کر دیا اور وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنایا۔
عالیقدر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد نے اس وقت جو کارنامے سرانجام دیئے وہ رہتی دنیا تک یاد کئے جائیں گے، انہوں نے ایک مہمان کو دشمن کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی جان، اولاد اور حکومت کو داو پر لگایا، وہ بہت اصول پرست انسان تھے، ان کے دل میں صرف اللہ کا خوف تھا، وہ دنیا کے مادی وسائل پر یقین رکھنے کے بجائے صرف اللہ تعالی کی مدد پر کامل یقین رکھتے تھے، جب امریکہ نے جارحیت سے قبل اسامہ بن لادن کو نائن الیون واقعہ کا ذمہ دار ٹہرایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس حملہ کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو غیر مشروط پر حوالہ کریں یا سخت سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوجائیں تو اس مرد قلندر نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں اسلام اجازت نہیں دیتا کہ کسی مسلمان کو ایک کافر کے سپرد کریں، ہم افغان ہیں اور ہماری روایات یہ اجازت نہیں دیتں کہ ہم کسی مہمان کو دشمن کے سپرد کریں، امریکہ ثبوت فراہم کریں، ہم اپنے قوانین کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
امریکہ نے جس غرور کے ساتھ نیٹو سمیت 48 ممالک کے لاو لشکر کے ساتھ افغانستان پر دھاوا بولنے کی دھمکی دی، اس کے جواب میں امیرالمومنین رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر امریکہ نے افغانستان کو نشانہ بنانے کی غلطی کی تو اس کو ہزیمت اٹھانا پڑے گی، بی بی سی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میری یہ پیش گوئی یاد رکھیں، امارت اسلامیہ ایک بار پھر بھرپور قوت کے ساتھ ابھرے گی اور اسلامی نظام نافذ کرے گی، ہمارے مجاہدین کی منظم صفیں ہیں، مجاہدین شہروں سے عقب نشینی اختیار کریں گے اور پہاڑوں میں پناہ لیکر امریکی افواج پر تابڑ توڑ حملے شروع کریں گے، امریکی فورسز زیادہ دیر تک ہماری کارروائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، ایک دن ضرور انہیں اس ملک سے واپس جانا ہوگا۔
بیس برس کے تاریخی معرکے کے بعد امریکہ نے ہار مان کر باعزت واپسی کے لئے دوحہ معاہدہ کیا اور ہزیمت اٹھانے کے بعد بڑی رسوائی کے ساتھ افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل مکمل کیا، اس کے اربوں ڈالرز ضائع ہوئے اور ہزاروں فوجیوں کی قربانیاں رائیگاں گئیں، امارت اسلامیہ نے سابقہ دور سے زیادہ قوت کے ساتھ پورے ملک پر کنٹرول حاصل کیا اور ایک بار پھر اسلامی نظام نافذ کرکے امیرالمومنین رحمہ اللہ کی روح کو سکون بخشا، آج ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ امیرالمومنین رحمہ اللہ کے پرانے ساتھی برسراقتدار ہیں، ملک میں اسلامی نظام نافذ اور فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوا ہے، یہ سب کچھ مرحوم امیرالمومنین کی حقانیت اور کرامت کا بین ثبوت ہے۔
امریکی جارحیت کے بعد امیرالمومنین رحمہ اللہ قندہار سے نکل کر صوبہ زابل کے ضلع شینکی گئے اور رمضان المبارک کے بیس دن کلی اشرف خیل میں اپنے بہنوئی مولوی عبدالرحمن کے ہاں قیام کیا اور اس کے بعد ضلع سیوری جاکر سارھے تین سال تک کلی خوڑہ میں عبدالصمد استاد کے گھر میں قیام کیا اور اس کے بعد ساڑھے آٹھ سال تک ملا عبدالجبار عمری کے ہاں قیام کیا اور اسی جگہ سے جہادی صفوں کو دوبارہ منظم کرکے ملک کے طول و عرض میں امریکی و نیٹو فورسز کے خلاف جہادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا، 2005 کے بعد مختلف صوبوں میں دشمن کے خلاف جنگ میں شدت آئی، انہوں نے خط و کتابت کے ذریعے جہادی صفوں کو منظم کیا اور مختلف کمیشنوں کا قیام عمل میں لایا، وہ وقتا فوقتا اپنے قریبی ساتھیوں کو ہدایات دیتے رہے، یہاں تک کہ 2009 میں امریکی حکام نے خفیہ طریقے سے مذاکرات کی پیشکش کی اور اس وقت امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے دورہ افغانستان کے بعد باضابطہ طور پر امریکی صدر اوباما کو رپورٹ دی کہ افغان جنگ جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے، مذاکرات کے ذریعے اس جنگ سے جان چڑھانے کا آپشن استعمال کرنا چاہیے، چنانچہ امریکی پیشکش کے بعد امیرالمومنین رحمہ اللہ نے مذاکرات کی منظوری دیدی، 2013 میں باقاعدہ طور پر قطر میں امارت اسلامیہ نے سیاسی دفتر کھول دیا اور وہاں سے اعلانیہ طور پر مذاکرات اور مختلف ممالک کے دوروں کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کا نتیجہ کامیاب دوحہ معاہدے کی شکل میں سامنے آیا۔
دشمن نے بہت پروپیگنڈہ کیا کہ ملا محمد عمر مجاہد ملک سے باہر کسی شہر میں موجود ہیں، وہ زندہ نہیں ہیں، ان کے احکامات نہیں مانے جاتے ہیں، یہ تمام پروپیگنڈے اس وقت غلط ثابت ہوئے کہ اشرف غنی انتظامیہ نے امیرالمومنین رحمہ اللہ کے میزبان ملا عبدالجبار عمری کو صوبہ زابل کے دارالحکومت قلات سے گرفتار کیا اور کابل منتقل کرکے ان سے تحقیقات کیں، ملا عبدالجبار عمری نے صاف صاف بتایا کہ امیرالمومنین روز اول سے افغانستان میں موجود تھے اور ایک گھنٹہ کے لئے بھی ملک سے باہر نہیں گئے، وہ ٹی بی کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور روپوشی کی وجہ سے خاطر خواہ علاج نہ کر سکے اور 23 اپریل 2013میں رحلت فرماگئے، اللہ تعالی اپنی جوار رحمت میں انہیں جگہ عطا فرمائے۔
ان کی وفات کے بعد ملا عبدالجبار عمری نے انہیں اسی کمرے میں دفن کر دیا اور پھر ان کی گرفتاری کے بعد ان بیٹے مولوی محمد یعقوب مجاہد اور بھائی ملا عبدالمنان عمری نے اسی گاوں میں زمین خرید کر اس پر ایک گھر بنایا اور امیرالمومنین رحمہ اللہ کو بھی اسی گھر میں ایک کمرے میں دفن کر دیا، پھر سیکورٹی وجوہات کی بناء پر ان کی قبر کو خفیہ رکھا گیا اور گزشتہ روز امارت اسلامیہ کے رئیس الوزراء اور کابینہ کے ارکان نے ایک پروقار تقریب میں امیرالمومنین رحمہ اللہ کی قبر کا انکشاف کردیا، اس موقع پر رئیس الوزراء ملا محمد حسن اخوند، رئیس الوزراء کے نائب ملا بردار اخوند، وزیر دفاع اور امیرالمومنین رحمہ اللہ کے بیٹے مولوی محمد یعقوب مجاہد، وزیر خارجہ مولوی امیرخان متقی، وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شیخ مولوی عبدالحکیم حقانی، چیف آف آرمی اسٹاف قاری فصیح الدین فطرت، ملا عبدالمنان عمری، وزیر حج و اوقاف شیخ نورمحمد ثاقب سمیت دیگر رہنماوں نے منعقدہ تقریب سے خطاب کیا اور امیرالمومنین رحمہ اللہ کے کارناموں اور عظیم جہادی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ان کے نقش قدم پر چل کر ان کی امنگوں کے مطابق ملکی نظام چلائیں گے۔
اللہ تعالی امیرالمومنین رحمہ اللہ کے درجات بلند فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف اور عظیم خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے پیروکاروں کو ان کا ادھورا مشن مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بشکریہ الامارہ اردو ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے