کیوبامیں امریکاکے زیرانتظام جزیرے گوانتاناموبے میں واقع عقوبت خانے میں بند معمرترین قیدی کے طور پرمعروف پاکستانی کو رہا کردیا گیا ہے اور ہفتے کے روزانھیں ان کے آبائی ملک کے حکام کے حوالے کردیا گیا ہے۔

امریکا نے گوانتاناموبے میں یہ بدنام زمانہ جیل ستمبر2001 میں القاعدہ کے حملوں کے بعد قائم کی گئی تھی اور اس میں امریکاکی نام نہاد’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں سکیورٹی فورسز اور فوج کی کارروائیوں میں پکڑے گئے سیکڑوں مشتبہ عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کورکھا گیا تھا۔

پاکستانی کاروباری سیف اللہ پراچہ کو امریکی حکام نے 2003 میں تھائی لینڈ میں حراست میں لیا تھا اور ان پرشدت پسند گروپ القاعدہ کی مالی معاونت کا الزام عاید کیا گیا تھا۔تاہم انھوں نے اپنی بے گناہی پر اصرار کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ امریکا کے مخالف نہیں بلکہ اس کے محبّ ہیں۔

گوانتاناموبے میں زیرحراست زیادہ ترقیدیوں کی طرح 75 یا 76 سال کی عمر کے سیف اللہ پراچہ پرکبھی باضابطہ طور پرفردِجُرم عاید نہیں کی گئی۔اس بنا پران کے پاس کسی عدالت میں اپنی حراست کو چیلنج کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا۔

اسلام آباد میں دفترخارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزارت خارجہ نے پراچہ کی وطن واپسی کے لیے مختلف ایجنسیوں اوراداروں کے درمیان ضابطے کا عمل مکمل کر لیا ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ بیرون ملک قید پاکستانی شہری بالآخراپنے اہل خانہ سے مل رہاہے۔

پراچہ کی رہائی اور پاکستان روانگی کی اطلاع مریکی صدرجوبائیڈن کی جانب سے گذشتہ سال ایک اور پاکستانی شہری 55 سالہ عبدالربانی اور یمن سے تعلق رکھنے والے41 سالہ عثمان عبدالرحیم عثمان کی رہائی کی منظوری کے بعد سامنے آئی ہے۔

تاہم دفترخارجہ کے بیان میں ربانی کا ذکر نہیں کیا گیا۔بائیڈن پردباؤ ہے کہ وہ گوانتاناموبے میں پابند سلاسل تمام قیدیوں کورہا کریں اور القاعدہ سے براہ راست تعلق رکھنے کے الزام میں ان افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کو آگے بڑھائیں۔

اس وقت اس حراستی مرکز میں قریباً 40 قیدی باقی رہ گئے ہیں۔ان میں کئی ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کا مبیّنہ طورپرنائن الیون اور القاعدہ کے دیگرحملوں میں براہ راست کردار تھا۔

واضح رہے کہ امریکا سے تعلیم یافتہ سیف اللہ پراچہ کا گرفتاری سے قبل اشیاء کی درآمدو برآمد کا کاروبار تھااور وہ بڑے امریکی خوردفروشوں کومال سپلائی کیا کرتے تھے۔

امریکی حکام نے ان پراسامہ بن لادن اورخالد شیخ محمد سمیت القاعدہ کے سرکردہ رہ نماؤں کے ساتھ روابط استوار کرنے کا الزام عاید کیا تھا۔سنہ 2008 میں پراچہ کے وکیل نے کہا تھا کہ ان کے مؤکل کی ملاقات 1999 میں اسامہ بن لادن سے ہوئی تھی۔اس سے اگلےسال ان کی ایک اور ملاقات ہوئی تھی اور یہ ایک ٹیلی ویژن پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں ہوئی تھی۔

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے خیراتی ادارے ‘ریپریو'(واپسی) نے سیف پراچہ کو’ہمیشہ کے لیے قیدی‘ قرار دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے