استنبول: (ویب ڈیسک) ترکیہ کے شمالی حصے میں کوئلے کی کان میں دھماکے کے نتیجے میں 41 کان کن جاں بحق ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کوئلے کی کان میں ہونے والے دھماکے میں 41 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ترک صدر رجب طیب اردوان نے کی۔

اجلاس کے بعد ترک صدر نے کہا کہ کان میں پھنسے آخری کان کن کو بھی برآمد کر لیا گیا ہے جبکہ اموات کی تعداد 41 ہو گئی ہے۔ دھماکے میں جانوں سے ہاتھ دھونے والے کان کنوں کی مغفرت ، ان کے اہل خانہ اور ترک قوم کے ساتھ تعزیت کرتا ہوں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا گو ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے فوراً بعد سے تمام تر سرکاری اداروں کو متحرک کرتے ہوئے جائے حادثہ میں مداخلت کی گئی، دھماکے کے اسباب اور اگر اس کا کوئی ذمہ دار ہے تو اداراتی و عدالتی کاروائی کے ذریعے ان کا تعین کیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ اب کے بعد ہم کانوں میں کسی قسم کی خامی اور غیر ضروری خطرات کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ کان میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کو سہارا دینا مملکت اعلی ترین نمائندے کی حیثیت سے ہم پر قرض ہے۔ حکومتِ ترکی کان کنوں کے اہل خانہ کو مالی امداد فراہم کرے گی۔

ترک صدر کے جائے وقوعہ کے دورے کے دوران، اسپیکر ِ اسمبلی مصطفیٰ شنتوپ، نائب صدر فواد اوکتائے، وزیر صحت فخرالدین قوجا ، وزیر ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر عادل قارا اسماعیل اولو، جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے نائب چیئرمین بن علی یلدرم، صدارتی محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹر فخرالدین آلتون اور ایوان صدر کے ترجمان ابراہیم قالن بھی ان کے ہمراہ تھے۔

ترک وزیر داخلہ سلیمان صویلو نے بحر اسود سے جڑے صوبے بارتین کے اماصرہ ضلع میں جائے حادثہ پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ جس وقت دھماکہ ہوا اس وقت مجموعی طور پر 110 مزدور کان کے اندر موجود تھے۔

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اب بھی 49 افراد کان کے اندر دو مختلف جگہوں پر پھنسے ہوئے ہیں جو سطح زمین سے 300 اور 350 میٹر نیچے ہیں۔

مقامی سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کو فی الحال ایک حادثے کی طور پر دیکھ رہے ہیں اور باضابطہ تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

قبل ازیں وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے کہا تھا کہ دھماکے کے وقت کان میں کام کرنے والے 110 میں سے 58 افراد کو ٹیموں نے بچا لیا یا خود ہی باہر نکل گئے۔

یاد رہے کہ 2014 میں استنبول سے 350 کلومیٹر جنوب میں واقع مغربی قصبے سوما میں بدترین کان کنی کی تباہی میں 301 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے