تحریر: مستنصر حجازی
جب سے افغانستان میں امارت اسلامیہ کی حکومت قائم ہوئی ہے تب سے مختلف مواقع پر جو سوالات تواتر سے ہورہے ہیں ان میں نئی حکومت کو تسلیم کرنے نہ کرنے کا سوال سب سے نمایاں ہے ۔کوئی بھی صحافی یا تجزیہ کار اس حوالے سے بات کرنا چاہے تو آغاز بھی اسی سے مسئلے سے کرتا ہے اور اختتام بھی اسی پر ۔ اس مسئلے کو اس طور پر پیش کیا گیا ہے کہ گویا حکومت کو تسلیم کیے بنا زندہ رہنا بھی ممکن نہیں ہے،حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ حقیقت تسلیم ہے کہ معاصر دنیا میں حکومتیں بیرون ممالک سے تعلقات بنا کر ہی آگے بڑھتی ہیں اور ظاہر ہے کھلے تعلقات رکھنے کے لیے حکومت کو تسلیم کرلینا ضروری ہے۔ جب دوسرے ممالک حکومت کو تسلیم نہ کریں تو اس سے حکومت کو اندرونی و بیرونی طور پر مشکلات ضرور ہوسکتی ہیں، مگر یہ مشکلات دائمی نہیں ہوتیں اور نہ ہی مشکلات کی شدت اس نوع کی ہوتی ہے جس طرح بیان کی جاتی ہیں۔ تسلیم کیے بنا حکومتیں چل سکتی ہیں۔ مشکلات کے باوجود ٹھیک ٹھاک چل سکتی ہیں۔ مگر ایسی نازک صورت حال میں بالغ نظری، قوم و ملت اور اس کے وسائل کے ساتھ غیر معمولی دیانت داری اور اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایسی صورت حال میں جب کہ نئی افغان حکومت کو کسی بیرونی ملک نے تسلیم نہیں کیا پچھلے ایک سال کے دوران میں کئی ایسی کامیابیاں شمار کی جاسکتی ہیں جو موجودہ حکومت نے حاصل کی ہیں۔ مگر زیر نظر مضمون میں ان کامیابیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے افغان حکومت اور روس کے دمیان ہونے والے نئے معاہدے اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کو ہونے والے معاشی فائدے اور امریکی دباو سے نکلنے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے ترجمان آفس سے جاری ہونے والے بیان اور بعد ازاں وزیر تجارت و صنعت نور الدین عزیزی کے بی بی سی پشتو کو دیے گئے انٹریو میں مذکورہ معاہدے کا مقصد ملک میں اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پانا اور ملکی معیشت کو مزید مستحکم کرنا بتا گیا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں روس افغانستان کو سالانہ دس لاکھ ٹن ڈیزل، دس لاکھ ٹن پٹرول، پانچ لاکھ ٹن ایل پی جی اور بیس لاکھ ٹن گندم فراہم کرے گا۔ وزیر تجارت نے کہا کہ ہر تین ماہ بعد اس تجارتی عمل کا جائزہ لیا جائے گا ، اگر اسے دونوں ملکوں کے لیے مفید پایا گیا تو اسے دیگر اشیائے خورد و نوش کے لیے وسعت بھی دی جائے گی۔ یہ معاہدہ پچھلے ایک سال کے دوران کسی بیرونی ملک کے ساتھ بڑا اور غیر معمولی معاہدہ ہے۔ معاہدہ بھی ان ممالک کے درمیان ہے جو امریکا کے زیر عتاب ہیں۔ دونوں ممالک پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔
عالمی قوتیں جب کسی ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتی ہیں تو ان کا مقصد اس ملک کی معیشت کو متاثر کرنا اور اسے ممکنہ جارحیت سے روکنا ہوتا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے یورپی یونین نے مختلف اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاکہ اسے یوکرین پر حملے سے روکا جاسکے۔ یورپی یونین نے روس کے بینکوں میں رقوم کی منتقلی کے نظام سوئفٹ سے روس کو ہٹا دیا ہے۔ اس نظام کے ذریعے بیرون دنیا سے روسی بینکوں میں رقوم کی منتقلی اور بیرون دنیا میں روس کی جانب سے واجب الادا رقوم کی ادائیگی آسان تھی، یورپی یونین نے اس نظام سے روس کو ہٹا کر اسے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس نظام سے ہٹائے جانے کی وجہ سے روس کو بیرون ممالک تیل اور گیس کی فراہمی میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مگر روس نے اسی نوع کے چینی نظام کو بطور متبادل استعمال کرکے اس کمی کو پورا کردیا ہے۔ یورپی یونین نے یورپی بینکوں میں روسی اثاثے بھی منجمد کرلیے جس سے روسی کرنسی روبل کی قدر میں کمی بھی آگئی۔برطانیہ نے اپنے شہریوں پر روسی بینکوں کے ساتھ لین پر پابندی عائد کردی ۔مگر یہ پابندیاں ایسی نہیں جس کا صرف روس کو نقصان ہورہا ہے بلکہ خود ان یورپی ممالک کو بھی نقصان ہورہا ہے جن کا انحصار روسی تیل پر ہے۔ روسی اعداد و شمار کے مطابق روس اس وقت یورپ کے تیل کی کل ضرورت میں سے 26 فی صد اور گیس کی ضرورت میں 38 فی صد پورا کر رہا ہے۔ اس لحاظ سے روس پر پابندیوں کی وجہ سے خود یورپ کو بھی کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
روس کے علاوہ افغانستان دوسرا ملک ہے جس پر امریکا نے اقتصادی پابندیاں عائد کررکھی ہیں، ان پابندیوں کا سب سے زیادہ نقصان افغان بینکوں کو ہوا۔ ان میں نہ بڑی رقم رکھی جاسکتی ہے اور نہ ہی منتقل کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے سات ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کرلیے ہیں۔ جس کا نقصان براہ راست افغان عوام کو ہورہا ہے، قوام متحدہ چین، روس او دیگر ممالک نے کئی مرتبہ امریکا سے اقتصادی پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان تمام پابندیوں اور چیلنجز کے باوجود نئی افغان حکومت پچھلے ایک سال کے دوران امریکی ڈالر کے مقابلے میں افغانی کی قدر کو مستحکم رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ایسی نازک صورت حال میں افغانستان اور روس کے درمیان تیل ، گیس اور گندم خریدنے کا معاہدہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کی معیشت کے لیے بہتر ہے بلکہ خطے میں امریکا کی جانب سے معاشی خوف کا طلسم توڑنے کا آغاز بھی ہے۔ امریکا پچھلے دو عشروں میں افغانستان سے جنوبی ایشیا کی سیاست کنٹرول کرتا رہا، مگر آج افغانستان میں نہ صرف یہ کہ امریکا کو پاوں جمنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ امریکا کے مفادات کے علی الرغم افغانستان امریکا کے سخت ترین مخالف روس کے ساتھ معاہد ہ کرنے جارہا ہے جو افغانستان کی معیشت میں بہتری لانے کے لیے پہلا قدم ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

بشکریہ الامارہ اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے