غیبی جذبے کو سلام

سعود عبدالمالک

گذشتہ دنوں آنے والے سیلاب سے جہاں  پر تباہی و جانی مالی نقصان ہوا لوگ در بدر ہوئے وہی خدمت کی فراونی ،حب انسانیت اور ایسے ایسے واقعات آنکھوں کے سامنے آئے کہ آپ کو اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس ہونے لگتا ہے۔ کچھ ایثار کے واقعات تو کیمروں کے زینت بنے سوشل میڈیا پر واہ واہ کی ذد میں رہے کسی کا اخلاص اتنا سچا کہ عمرے جیسے عظیم سعادت بھی نصیب ہوئی واقعات کیمرہ کی آنکھ والے بہت ہیں لیکن کچھ ایسے غیبی جذبے ایثار والے لوگ بھی اس ملک خداداد میں موجود ہیں جن کا نصب العین خدمت انسانیت بارضائے الہیٰ ہے جو انسانیت کی خدمت کیمرے کی آنکھ کے سامنے نہیں کرتے بلکہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے کرتے ہیں جو امداد کرنے میں اتنے سرگرم ہیں جن کو اپنے گھروں کا خیال نہیں ہے لیکن دوسروں کے گھروں کے لیے رات دن لگے ہوئے ہیں آج کی داستان ایک ایسے شخص کے بارے میں ہے جو کہ نہ اپنا نام ظاہر کرنے کو پسند کرتا ہے نہ علاقے کو ۔۔۔۔۔ اور مجھے بھی اس بنیاد پر لکھنے کی اجازت دی کہ آپ میرانام و علاقہ ظاہر نہیں کریں گے اسی پابندی کی وجہ سے اس کانام وعلاقہ ظاہر نہ کرتے ہوئے صرف اور صرف اس کے اخلاص کو بیان کرنا مقصود  حوصلہ افزائی ہے اور اس ملک میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خدمت صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں گذشتہ دنوں سیلاب کے متاثرہ علاقے کا دورہ ہوا وہاں پر ایک شخص بڑی تیزی سے ریلیف کاکام کررہا تھا محسوس ہوا کہ کوئی عام کارکن ہوگا لیکن اس کے چچازاد نے بتایا کہ اس کا اپنا گھر مکمل طور پر سیلاب کی نظر ہو چکا ہے گھر کے ساتھ ساتھ دکان بھی ۔۔۔۔ لیکن اس نے اپنے بیوی بچوں کو اپنے سسرال بھیج دیا اور خود کو ریلیف کے کام کے لیے وقف کر دیا اس سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے گھر کے لیے کچھ کیا تو کہا کہ پہلے دوسروں کا حق ہے جب اس نے اپنے علاقے میں خیمے تقسیم کرلے توپوچھا اپنے لیے تو کہنے لگا مجھے ضرورت نہیں وہ مصروف عمل رہا یہاں تک کہ خبر آئی کہ اسکا سسرال

بھی زیرآب آگیا اور وہ لوگ بھی دربدر ہوگئے لیکن اس اللہ کہ ولی کے چہرے پر اف تک نہ آئی اور کہا کہ اللہ  ان کا نگہبان ہوگا یہ بندہ خدا لگا رہا ریلیف کے کام میں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا رہا اس کے مدمقابل اللہ رب العزت کی شان دیکھیں کہ اس شخص کے بیوی اور بچے کو ایک سکول میں پناہ مل گئی وہاں پر ان کی اچھی طرح خیال رکھا گیا ۔ مکمل پردے میں ہونے کے باوجود انہوں نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا دور کی بات ان کے کمرے تک سب سے پہلے راشن پہنچ جاتا ہر کوئی یہی کہتا کہ یہ عورت باپردہ ہے کسی سے بات تک نہیں کرتی اس لیے اس حیا دار عورت کو پہلے سامان دیا کرو اب یہ اللہ کی بندی ضرورت سے زیادہ سامان ملنے پر اس سامان میں سے اپنے ضرورت کی چیزیں رکھ کر باقی تقسیم کر دیتی تھی اتنا ہی اپنے پاس رکھتی جتنے کی ضرورت تھی ایک طرف شوہر خدمت خلق کے جذبے سے سرشار دوسری طرف بیوی بھی ایثار کی پیکر جب اس غیبی جذبے کو دیکھا تو دل سے دعا نکلی کہ اے رب ہم لوگ بڑے ناشکرے ہیں سب کچھ ہونے کے باوجود بھی تیرا شکر نہیں کرتے اور جو تیرے شکر گزار بندے ہیں وہ تیرا شکر بھی ادا کرتے ہیں اور تیرے مخلوق کی خدمت بھی گمنامی میں کرتے ہیں یا اللہ یہ غیبی جذبہ ہمیں بھی عطا فرما اور ہماری تنظیم سعدفاؤنڈیشن کے بڑوں سے لے کر کارکنوں تک اسی اخلاص کے جذبے کے ساتھ ساتھ پابند شریعت  قائم رکھ اور ان سے انسانیت کا کام لیتا رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے