طالبان نے جمعرات کو قندھار میں ’ملک کے عمومی مسائل‘ پر تبادلہ خیال کے لیے ایک اجتماع منعقد کیا۔

اس اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی گئی، جس میں کسی ملک کا نام لیے بغیر امریکی ڈرون طیارے کو اپنی فضا استعمال کرنے کی اجازت دینے والے ’پڑوسی ملک‘ کو ’اس جرم میں برابر کا شریک‘ قرار دیا۔

 طالبان کے زیر کنٹرول میڈیا باختر نیوز ایجنسی نے اس اجلاس میں شرکا کی تعداد تقریباً تین ہزار بتائی اور رپورٹ کیا کہ اس میں طالبان کابینہ کے ارکان، علما، تاجر، سول کارکن اور بعض سابق افغان حکومتی ملازمین موجود تھے۔

قرار داد میں ہمسایہ ملک کے اس عمل کو ’ہمسائیگی اور اسلامیت کے خلاف‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا: ’اس ملک کے حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ افغانستان پر سودے بازی اور افغانستان کے دشمنوں کو افغانستان کے خلاف اپنی زمین اور فضا استعمال کرنے کی اجازت دینے کے نتائج ان کے حق میں برے ہوں گے۔‘

امریکہ نے ڈرون سے کیے گئے اس حملے کے مقام کے بارے میں اب تک کچھ نہیں بتایا ہے، تاہم شک پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک پر کیا جاتا ہے۔ طالبان نے بھی کھل کر کسی ملک کا نام نہیں لیا ہے۔

ایک دوسری قرارداد میں شرکا نے امریکہ کی جانب سے 31 جولائی کو کابل کے گنجان آباد علاقے میں کیے جانے والے ڈرون حملے کی شدید مذمت کی اور کہا: ’ہم اس حملے کو دوحہ معاہدے اور عالمی قوانین کی واضح خلاف ورزی، افغانستان کے سرحدی حدود کی پامالی اور اور ایک دہشت گردانہ عمل سمجھتے ہیں۔‘

طالبان نے اس کانفرنس کے اصل مقاصد عام مسائل پر بات کرنا تھی ۔ زیادہ تر مقررین نے طالبان کی امارت کو دنیا سے تسلیم کروانا چاہا اور طالبان کی ایک سال کی کارکردگی کو سراہا۔

طالبان کے وزیر برائے خیر و ممانعت شیخ محمد خالد حنفی نے کہا کہ طالبان کی امارت کے جواز کی بنیاد علما اور قبائلی رہنماؤں کی حمایت ہے، جو کہ حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا: ’قانونیت کا کیا مطلب ہے؟ کابل میں ہزاروں علما، قبائلی رہنما، بااثر افراد اور تاجروں نے امیر المومنین کی بیعت اور حمایت کا اعلان کیا۔‘

حنفی نے مزید کہا کہ افغانستان پر طالبان کی حکمرانی کے ساتھ ہی انتظامی بدعنوانی کا خاتمہ ہوا اور سلامتی قائم ہوگئی۔ ان کا اصرار تھا کہ معیشت اور دیگر معاملات بھی بہتر ہو رہے ہیں۔

قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی دنیا بھر میں ’بہتر‘ انداز میں نمائندگی کی گئی ہے۔

بقول متقی: ’کوئی افغانوں کا امتحان نہ لے۔ افغان کے ان غریب اور قابل فخر لوگوں کو خوشی سے رہنے دو۔‘

وزیر متقی نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے لیکن ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ 20 سال کی جنگ کے بعد کچھ ممالک کے ساتھ تعلقات جلد معمول پر آجائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان عالمی طاقتوں کے درمیان تنازع نہیں بنے گا اور افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

اس اجلاس میں کئی دیگر شرکا نے بھی سکیورٹی کے شعبے میں طالبان کی کارکردگی کو سراہا اور اسے ملکی اور غیرملکی تاجروں کی سرمایہ کاری میں اضافے کی بنیاد قرار دیا۔

عورتوں کے حقوق کے بارے میں بتایا گیا

خواتین کے حقوق پر بھی بات ہوئی اور اس بابت طالبان کے امیر کے 28 جمادی الثانی 1443 کو جاری کردہ فرمان کے نفاذ اور اس پر عمل در آمد کا حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس فرمان میں خواتین کو میراث میں شریعت کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق تقسیم، حق مہر عورت کا ذاتی حق ہے جو اسے پوری طرح حوالے کیا جانا چاہیے جو وہ اپنی مرضی سے خرچ کرسکے، عورت مرد کی طرح ایک انسان ہے، کسی کو بھی اجازت نہیں کہ اسے بھائی یا کسی اور رشتہ دار کی دشمنی کے بدلے میں دے دے، عاقلہ بالغہ بیوہ خاتون کو اپنی جان و مال کا پورا اختیار حاصل ہے۔ بیوگی کے بعد دیور یا اور کوئی سسرالی رشتہ دار اس کی رضامندی کے بغیر اس سے نکاح نہیں کرسکتا، عورت ایک آزاد انسان ہے سسرال کی ملکیت نہیں اور نہ ہی کوئی بالغ غیر شادی شدہ لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر کرویا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے