عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے قرض کی بحالی پر اتفاق کر لیا ہے جس کے تحت پاکستان کو معیشت کے استحکام کے لیے ایک اعشاریہ ایک سات ارب ڈالر قرض دیا جائے گا۔

آئی ایم ایف نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کی ٹیم نے ‘اسٹاف لیول ایگریمنٹ’ پر اتفاق کیا ہے جس کی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سےمنظوری درکار ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں افراطِ زر اور فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کو مالی سال 2022 میں بدترین صورتِ حال کا سامنا رہا اور اس کے زرِ مبادلہ اور غیر ملکی ذخائر میں کمی واقع ہوئی۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیے آئندہ مالی سال کے لیے منظور ہونے والے بجٹ کا فوری نفاذ، ایک فعال اور محتاط مالیاتی پالیسی کے ذریعے معاشی استحکام لانا ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق حکومتِ پاکستان کو کمزور طبقوں کے لیے سماجی تحفظ کو یقینی بنانے، ریاستی ملکیتی اداروں اور حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے سمیت اصلاحات کو تیز کرنا ضروری ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے قرض کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم حکومت کی جانب سے سبسڈی پر کنٹرول اور ٹیکس وصولیوں میں نمایاں طور پر بہتری لانے میں ناکامی کی وجہ سے یہ معاہدہ بار بار تعطل کا شکار رہا۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف قرض پروگرام کے تحت تین ارب ڈالر وصول کر چکا ہے۔

موجودہ مخلوط حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کے لیے کئی غیر معمولی فیصلے کیے ہیں جس میں پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکس کے حصول کے لیے نئے اقدامات متعارف کرانا شامل ہیں۔

وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے گزشتہ ماہ پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی اشد ضرورت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا ” ہم جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام سے ہماری سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچے گا لیکن ہمیں قرض پروگرام کی بحالی کا کام کرنا ہے۔”

آئی ایم ایف ٹیم کے سربراہ نیتھن پورٹر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اس وقت مشکل معاشی موڑ پر کھڑا ہے جس کے لیے بیرونی عوامل کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی پالیسیاں بھی ذمے دار ہیں۔

آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ پاکستانی حکام کو عالمی معیشت اور مالیاتی منڈیوں میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے قرض پروگرام کے مقاصد پورا کرنے کے لیے ضروری اضافی اقدامات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

واضح رہے کہ پاکستان اس وقت غیر ملکی ذخائر میں کمی اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ناقص ریونیو اکٹھا کرنے جیسے مسائل کا شکار ہے اور وہ اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی حمایت کے لیے پر تول رہا ہے۔

آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کے لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت نے بڑے پیمانے پر سبسڈیز کا خاتمہ کیا ہے جس کے بعد ملک میں مہنگائی کی لہر میں اضافہ ہوا اور حکومت کو اپنے حالیہ فیصلوں پر شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔

شہباز شریف کی قیادت میں اپریل میں آنے والی مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ انہیں ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے شہباز شریف نے تین مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی تھی جو لگ بھگ قیمتوں میں پچاس فی صد اضافہ بنتا ہے۔

شہباز شریف حکومت ملک میں جاری معاشی بحران کا ذمے دار سابق حکومت کو قرار دیتی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہائیوں سے جاری ناقص انتظامی صورت حال، بدعنوانی اور بڑے پیمانے پر ٹیکس کلیکشن میں ناکامی اس صورت ِحال کی بڑی وجہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے