وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس پیر کو پارلیمنٹ میں ہوا، جس کے ایجنڈے میں طالبان سے مذاکرات اور دیگر اہم امور شامل تھے۔

اعلیٰ عسکری قیادت نے قومی سکیورٹی کمیٹی میں بریفنگ دی۔ چونکہ اجلاس کے ایجنڈے میں طالبان سے مذاکرات بھی شامل ہیں اس لیے قومی سلامتی کمیٹی میں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی شرکت کی۔

قومی سلامتی اجلاس قومی اسمبلی ہال میں ہوا۔ اجلاس میں سندھ، پنجاب، بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ، گورنرز کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی اراکین موجود تھے۔

قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ساڑھے چار گھنٹے جاری رہا۔ کمیٹی اراکین کے مطابق اجلاس میں آرمی چیف سے سوالات بھی ہوئے جن کے تسلی بخش مفصل جواب دیے گئے۔

اجلاس کے بعد سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ آئین کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات ہونے چاہییں۔

انہوں نے کہا: ’اگر وہ اپنی تنظیم تحلیل کردیں۔ پاکستان کا آئین تسلیم کریں تو مذاکرات ہوں گے۔‘

کامل علی آغا نے مزید بتایا کہ سٹیرنگ کمیٹی میں صرف پارلیمانی ممبران ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے ارکان کے تمام سوالات کے جواب دیئے۔ انہوں نے بتایا: ’آج تک پارلیمنٹ کے ساتھ جو امور زیر بحث نہیں آئے ان امور پر بھی بریفنگ دی گئی۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں عسکری حکام نے واضح کیا کہ جو بات پارلیمنٹ واضح کرے گی اسی پر عمل ہوگا۔‘

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے باہر آ کر بتایا: ’تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مشروط مذاکرات کرنے کے لیے پارلیمان میں اتفاق ہو گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ بہت تفصیل سے بات چیت ہوئی مباحثہ ہوا لیکن اتفاق اسی بات پر ہوا کہ مذاکرات میں بات آگے بڑھنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں حکومت کی طرف سے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہو گا۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ افغانستان کی حکومت کی سہولت کاری سے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے۔

مذاکراتی کمیٹی حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل ہے۔ بریفنگ میں کہا گیا کہ کمیٹی آئین پاکستان کے دائرے میں طالبان سے بات چیت کررہی ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری اور اتفاق رائے سے کیاجائے گا۔

پارلیمانی کمیٹی کے 27 اراکین، سینیٹ و قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹیوں کے اراکین، وفاقی سیکرٹریز، چیف سیکرٹریز بھی اجلاس میں موجود تھے۔

اس کے علاوہ 63 خصوصی دعوت نامے بھجوائے گئے جس میں سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، محمود خان اچکزئی صدر پی کے میپ، قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی راجا ریاض، محسن داوڑ ، وفاقی وزرا، وزیراعظم کے مشیران بھی شامل تھے۔

جبکہ تحریک انصاف کے کچھ منحرف اراکین، آزاد کشمیر کے صدر، گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ اور افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان کے نام بھی ان دعوت ناموں میں شامل ہیں۔

جبکہ وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

کمیٹی برائے نیشنل سکیورٹی کی جانب سے جاری شدہ اعلامیہ

پارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سکیورٹی کا اہم اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاﺅس میں وزیراعظم شہبازشریف کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں قومی پارلیمانی وسیاسی قیادت، چئیرمین سینٹ، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی، دفاع سے متعلق قومی اسمبلی و سینٹ کی مجالس قائمہ کے اراکین، وفاقی وزرا، صوبائی وزرا اعلی کے علاوہ گلگت بلتستان کے وزیراعلی، وزیراعظم آزاد ریاست جموں وکشمیر اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔

اجلاس پر سکیورٹی ہائی الرٹ، میڈیا کی محدود رسائی

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں عسکری قیادت کی آمد کے باعث سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں پبلک اکاونٹس کمیٹی سمیت تمام قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس منسوخ کر دیے گئے اس کے علاوہ غیر متعلقہ افراد کا پارلیمنٹ کے احاطے میں داخلہ بھی بند کر دیا گیا۔

اجلاس اِن کیمرہ تھا لیکن اس کے باوجود میڈیا کے نمائندوں کو پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

میڈیا نمائندگان نے وزیر اطلاعات کو باقاعدہ اپنے تحفظات پہنچائے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں جب ایک بار پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اجلاس ہوا تھا تو میڈیا کو پارلیمنٹ کے احاطے میں بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا اور تب ن لیگ نے احتجاج کیا تھا اور آج جب ن لیگ حکومت میں موجود ہے تو پھر بھی میڈیا کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے۔

ان تحفظات اور احتجاج کے بعد میڈیا نمائندگان کو صرف پارلیمنٹ کے احاطے میں بنے میڈیا سینٹر تک رسائی دی گئی۔

وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس نے قومی سلامتی اجلاس سے باہر آ کر میڈیا کو معلومات دینے سے گریز کیا اور کہا کہ ’حساس معلومات ہیں اس لیے بتا نہیں سکتا۔‘

انہوں نے صرف اتنا بتایا کہ طالبان کے معاملے پر ایک سٹیئرنگ کمیٹی بنائی جارہی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی میں اداروں نے اس سے متعلق بریفنگ دی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’عمران خان کی مشاورت سے آج کے اجلاس میں شریک ہوا ہوں۔‘

اتحادی حکومت کے 63 خصوصی دعوت ناموں میں کس کو نہیں بلایا؟

اجلاس میں اتحادی حکومت کی جانب سے جو 63 دعوت نامے بھجوائے گئے اُن میں سابق وزیراعظم عمران خان کو بطور پارٹی سربراہ نہیں بلایا گیا اور نہ ہی وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بلایا گیا۔خصوصی دعوت ناموں میں تحریک انصاف سے صرف سینیٹر شبلی فراز اور سینیٹر محسن عزیز کے نام شامل ہیں۔

فواد چوہدری نے قومی سلامتی اجلاس میں نہ بلانے پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس وقت اسمبلی مقبوضہ ہے جب آزاد ہو گی تب ہم اسمبلی میں جائیں گے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے بلانا نہ بلانا اہم نہیں اہم یہ ہے کہ اس فورم کو نہ آئین کا اعتماد حاصل ہے نہ عوام کا یہ صرف ایک کاغذی فورم ہے۔

مومی طور پر پارلیمانی سلامتی اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی کرتے ہیں لیکن منگل کو ہونے والے اجلاس کی صدارت سپیکر راجہ پرویز اشرف نہیں کر سکے کیونکہ وہ آنکھوں کے علاج کےلیے دبئی میں ہیں۔

گذشتہ اجلاس جو کہ 22 جون کو وزیراعظم ہاؤس میں ہوا تھا اُس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر بات چیت ہوئی تھی۔

وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والا اجلاس انتہائی محدود پیمانے پر منعقد ہوا تھا تمام پارلیمان کو بھی مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

سوا تین گھنٹے وہ اجلاس جاری رہا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بریفنگ دی تھی اور بتایا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پارلیمان کو پہلے اعتماد میں لیں گے۔ اس لیے دو ہفتے بعد ہونے والے اس اجلاس کا مقصد ان معاملات میں پارلیمان کا مکمل اعتماد حاصل کرنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے