وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس پیر کو پارلیمنٹ میں ہوا، جس کے ایجنڈے میں طالبان سے مذاکرات اور دیگر اہم امور شامل تھے۔
اعلیٰ عسکری قیادت نے قومی سکیورٹی کمیٹی میں بریفنگ دی۔ چونکہ اجلاس کے ایجنڈے میں طالبان سے مذاکرات بھی شامل ہیں اس لیے قومی سلامتی کمیٹی میں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی شرکت کی۔
قومی سلامتی اجلاس قومی اسمبلی ہال میں ہوا۔ اجلاس میں سندھ، پنجاب، بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ، گورنرز کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی اراکین موجود تھے۔
پارلیمانی کمیٹی کے 27 اراکین، سینیٹ و قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹیوں کے اراکین، وفاقی سیکرٹریز، چیف سیکرٹریز بھی اجلاس میں موجود تھے۔
اس کے علاوہ 63 خصوصی دعوت نامے بھجوائے گئے جس میں سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، محمود خان اچکزئی صدر پی کے میپ، قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی راجا ریاض، محسن داوڑ ، وفاقی وزرا، وزیراعظم کے مشیران بھی شامل تھے۔
جبکہ تحریک انصاف کے کچھ منحرف اراکین، آزاد کشمیر کے صدر، گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ اور افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان کے نام بھی ان دعوت ناموں میں شامل ہیں۔
جبکہ وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
اجلاس پر سکیورٹی ہائی الرٹ، میڈیا کی محدود رسائی
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں عسکری قیادت کی آمد کے باعث سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں پبلک اکاونٹس کمیٹی سمیت تمام قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس منسوخ کر دیے گئے اس کے علاوہ غیر متعلقہ افراد کا پارلیمنٹ کے احاطے میں داخلہ بھی بند کر دیا گیا۔
اجلاس اِن کیمرہ تھا لیکن اس کے باوجود میڈیا کے نمائندوں کو پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
میڈیا نمائندگان نے وزیر اطلاعات کو باقاعدہ اپنے تحفظات پہنچائے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں جب ایک بار پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اجلاس ہوا تھا تو میڈیا کو پارلیمنٹ کے احاطے میں بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا اور تب ن لیگ نے احتجاج کیا تھا اور آج جب ن لیگ حکومت میں موجود ہے تو پھر بھی میڈیا کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے۔
ان تحفظات اور احتجاج کے بعد میڈیا نمائندگان کو صرف پارلیمنٹ کے احاطے میں بنے میڈیا سینٹر تک رسائی دی گئی۔
اتحادی حکومت کے 63 خصوصی دعوت ناموں میں کس کو نہیں بلایا؟
اجلاس میں اتحادی حکومت کی جانب سے جو 63 دعوت نامے بھجوائے گئے اُن میں سابق وزیراعظم عمران خان کو بطور پارٹی سربراہ نہیں بلایا گیا اور نہ ہی وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بلایا گیا۔خصوصی دعوت ناموں میں تحریک انصاف سے صرف سینیٹر شبلی فراز اور سینیٹر محسن عزیز کے نام شامل ہیں۔
عمومی طور پر پارلیمانی سلامتی اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی کرتے ہیں لیکن منگل کو ہونے والے اجلاس کی صدارت سپیکر راجہ پرویز اشرف نہیں کر سکے کیونکہ وہ آنکھوں کے علاج کےلیے دبئی میں ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ اجلاس جو کہ 22 جون کو وزیراعظم ہاؤس میں ہوا تھا اُس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر بات چیت ہوئی تھی۔
وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والا اجلاس انتہائی محدود پیمانے پر منعقد ہوا تھا تمام پارلیمان کو بھی مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
سوا تین گھنٹے وہ اجلاس جاری رہا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بریفنگ دی تھی اور بتایا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پارلیمان کو پہلے اعتماد میں لیں گے۔ اس لیے دو ہفتے بعد ہونے والے اس اجلاس کا مقصد ان معاملات میں پارلیمان کا مکمل اعتماد حاصل کرنا ہے۔