اسلام آباد: حکومت پاکستان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے لیے کابل جانے والا 57 رکنی جرگہ کسی بڑی پیش رفت کے بغیر واپس لوٹ آیا تاہم غیر معینہ مدت تک سیز فائر پر اتفاق برقرار ہے۔ 

ڈان ڈاٹ کام کے مطابق طالبان کی ثالثی میں حکومت پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان کابل کے انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں دو روز تک جاری رہنے والے مذاکرات ختم ہوگئے جس کے بعد حکومت پاکستان کا قبائلی عمائدین، سیاست دانوں اور ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل 57 رکنی جرگہ واپس آگیا۔

جرگہ کے ایک سینئر رکن نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر ماحول بہت مثبت رہا۔ ٹی ٹی پی کا اپنا نقطہ نظر تھا اور ہم اپنا مؤقف رکھتے ہیں اس لیے طویل بحثیں ہوئیں۔ ان کی خواہش تھی کہ کے پی کے سے انضمام ختم کرکے فاٹا کی پرانی حیثیت بحال کی جائے۔

مذاکرات میں شامل سینیئر رکن کے مطابق  ہم نے ٹی ٹی پی کو سمجھایا کہ فاٹا کے انضمام کا باعث بننے والی 25 ویں ترمیم کو سیاسی اتفاق رائے اور پارلیمانی حمایت حاصل تھی اور پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی توثیق کی۔ ہم اسے کالعدم کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔

جرگے کے سینیئر رکن نے ڈان کو مزید بتایا کہ ہم نے اہم اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاسی اور عسکری قیادت سے باہمی مشاورت اور بات چیت کے لیے ٹی ٹی پی سے 3 ماہ کا وقت مانگا ہے تاکہ ان کے تحفظات کو آئینی فریم ورک کے اندر دور کرنے کے لیے تجاویز مرتب کر سکیں۔

جرگہ کے سینیئر رکن نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر لانے میں افغانستان کی طالبان حکومت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کیساتھ ٹی ٹی پی کے تنازع کا خاتمہ افغانستان کے بہترین مفاد میں ہے۔

دوسری جانب طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ ہماری سرزمین سے کوئی بھی حملہ پاکستان کو ناراض کرسکتا ہے اور اس طرح ہمارے پڑوسی ملک کے ساتھ  مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جس کے اسلامی امارت کے لیے عالمی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ تاہم ہم ’ٹی ٹی پی‘ کو مجبور نہیں کرنا چاہتے جس نے ہمارے ساتھ مل کر امریکیوں کے خلاف جہاد کیا اور قربانیاں دیں۔ اس لیے یہ زیادہ بہتر ہو گا کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی ایک دوسرے کو کچھ رعایتیں دینے کے بعد امن معاہدہ کر لیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے