القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹرایمن الظواہری کی ایک نئی ویڈیو منظرعام پر آئی ہے۔اس میں وہ ایک بھارتی مسلمان لڑکی کی تعریف کررہے ہیں جس نے فروری میں حجاب پہننے پرپابندی کے خلاف نعرہ مستانہ بلند کیا تھا۔ان کی کئی برس کے بعد یہ ویڈیوسامنے آئی ہے اور یہ اس امرکا ثبوت ہےکہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔

ایمن الظواہری کی موت کی افواہیں گذشتہ دو سال سے زیادہ عرصے سے گردش کررہی ہیں لیکن منگل کو جاری کردہ اس ویڈیومیں القاعدہ کے سربراہ بھارتی مسلم لڑکی مسکان خان کی تعریف کرتے ہیں جنھوں نے بھارت کی جنوب مغربی ریاست کرناٹک کے اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی کی خلاف ورزی کی تھی۔اس سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ ویڈیوحال ہی میں کہیں ریکارڈ کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ مسلم لڑکی مسکان خان نے اس وقت اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھاجب ہندو بنیادپرست طلبہ نے ایک کالج کے باہرمسلمانوں کی شناخت سرپوش پہننے پرانھیں طنزکیا تھا اور ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی مگرمارچ میں ریاست کرناٹک کی اعلیٰ عدالت نے برقع اوڑھنے پرپابندی کو برقرار رکھا تھا۔

ایمن الظواہری کی پچھلی ویڈیوز واضح طور پر اس حقیقی وقت کی شناخت نہیں کرسکیں جس میں انھیں ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے پیش نظران کی بگڑتی ہوئی صحت اور ان کی موت کے بارے میں قیاس آرائیوں کو ہوا ملی تھی۔

نئی ویڈیو سے ظواہری کے جائے قیام مقام کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا۔انھیں روایتی سفید سرپوش میں ایک پوسٹرکے ساتھ دکھایا گیا ہے اور اس میں ’’ہندوستان کی نیک عورت‘‘کی تعریف کی گئی ہے۔

تاہم اس سے القاعدہ کی افغانستان میں موجودگی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے اور حکمران طالبان کی جانب سے انتہاپسند گروہوں کے خلاف لڑنے اورانھیں افغانستان میں جگہ دینے سے انکار کرنے کے عزم پرخدشات پیدا ہوسکتے ہیں۔

مصری نژاد ڈاکٹرایمن ظواہری نے 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی قیادت سنبھالی تھی۔انھیں امریکی بحریہ کے سیلز نے پاکستان کے شہرایبٹ آباد میں رات کے وقت ایک جرات مندانہ چھاپامارکاروائی کے دوران میں ہلاک کردیا تھا۔وہ وہاں ایک قلعہ نما مکان میں روپوش تھے۔

ظواہری کے بارے میں یہ افواہیں گردش کرتی رہی ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحد پر واقع افغانستان کے شمال مغربی صوبہ کنڑ یا بدخشاں میں ہوسکتے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت کو 2001 میں امریکا کی قیادت میں فوجی اتحاد نے بن لادن کو پناہ دینے کے الزام میں ختم کردیا تھا۔اس کےبعد دوعشرے تک طالبان امریکا اوراس کی اتحادی افواج کے خلاف مزاحمتی جنگ لڑتے رہے ہیں۔وہ گذشتہ سال اگست میں افغانستان میں امریکااور نیٹ کی 20 سالہ جنگ کے افراتفری کے عالم میں خاتمے کے بعد دوبارہ برسراقتدار آئے تھے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدارسنبھالنے سے قبل 2020 میں امریکا کے ساتھ طے شدہ ایک معاہدے پر عمل پیرا ہیں۔اس میں انھوں نے دہشت گردوں سے لڑنے اور انھیں جنگ زدہ ملک میں پناہ نہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔اقتدار میں واپسی کے بعدانھوں نے باربار کہا ہے کہ وہ افغانستان کو دوسرے ممالک کے خلاف حملوں کے لانچنگ پیڈ کےطورپر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے