اسلام آباد:  سپریم کورٹ نے ملک میں موجودہ آئینی صورتحال پر ازخود نوٹس کی سماعت کل 12 بجے تک ملتوی کر دی۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مقدمہ کو آج ہی مکمل کریں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آج ہی سن کر فیصلہ دینا ممکن نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ملک میں موجودہ آئینی صورتحال پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ وکیل بابر اعوان نے موقف اپنایا کہ صدارتی ریفرنس کو موجودہ از خود نوٹس کے ساتھ سنا جائے، جو کچھ بھی ہوا ہے سب ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، سارا مسئلہ جلدی الیکشن کا تھا، عمران خان کی اجازت سے عرض کر رہا ہوں کہ الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے سیاسی باتیں نہ کریں، آج مناسب حکم جاری کریں گے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو اپنے کیس کی کیا پریشانی ہے ؟ عدالت کو تعین کرنے دیں کہ کونسا سوال کتنا اہم ہے، فل کورٹ کی گزشتہ سال 63 سماعتیں ہوئیں، گزشتہ سال بھی فل کورٹ کی وجہ سے 10 ہزار مقدمات کا اضافہ ہوا، آپ بتانا پسند کریں گے کہ کونسے آئینی سوالات پر فل کورٹ کی ضرورت ہے ؟ اگر آپ کو کسی پر عدم اعتماد ہے تو بتا دیں، ہم اٹھ جاتے ہیں۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 95 وزیراعظم پر کسی چارج یا الزام کی بات نہیں کرتا، عدم اعتماد کے ووٹ کیلئے کوئی وجہ ہونا ضروری نہیں، اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد پر بھی وزیراعظم والا طریقہ کار لاگو ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا کیس اجلاس بروقت بلانے کا نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر نے اجلاس تاخیر سے بلانے کی وجوہات بھی جاری کی تھیں، وجوہات درست تھیں یا نہیں، اس پر آپ مؤقف دے سکتے ہیں، کیا آرڈر آف دی ڈے تب جاری ہوتے ہیں جب اسمبلی اجلاس چل رہا ہو ؟ کیا اسپیکر کو اسمبلی اجلاس بلانا ہوتا ہے ؟ کیا 10 مارچ آرڈر آف دی ڈے جاری کرنے کا نہیں ؟ کیا 10 مارچ آرڈرز سرکولیٹ کرنے کا دن تھا ؟۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا ووٹنگ سے پہلےعدم اعتماد پر بحث ہوتی ہے۔ جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا بحث کی تاریخ مختص نہ کرنے پر اعتراض کیا ؟ جس پر فاروق نائیک نے کہا ہم تو صرف بٹن دبا سکتے ہیں، اجلاس شروع ہوا تو فواد چودھری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط کے حوالے سے سوال کیا، فواد چودھری کے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ جاری کر دی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت اسپیکر دیتا ہے یا ایوان ؟ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اسپیکر کا اختیار ہے وہ تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے ؟ اسپیکر تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوتا ہے ؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کس طرح غیر آئینی ہے یہ بتائیں، اسپیکر کی ارکان اسمبلی کو غدار قرار دینے کی رولنگ غیر قانونی کیسے ہوئی ؟۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن اس کی حیثیت پر فیصلہ نہیں ہوسکتا، عدم اعتماد کے قانونی ہونے کا فیصلہ ووٹنگ کیلئے مقرر ہونے سے پہلے ہوسکتا ہے۔ جسٹس منیب نے استفسار کیا رولنگ قواعد کیخلاف تھی تو بھی کیا اسے آئینی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا ؟ اس پر وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد 3 منٹ سے بھی کم وقت میں مسترد کر دی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا رولنگ آئینی بے ضابطگی ہے یا قواعد کی؟ فاروق نائیک نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر رولنگ آئین کیخلاف ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیکر کس اسٹیج پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کرسکتا ہے ؟ فاروق نائیک نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی عدالتی فیصلہ بتائیں جس میں عدالت نے آرٹیکل 69 کی تشریح کی ہو، وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج ہوسکتی اور کالعدم بھی، چیف جسٹس نے کہا کہ نکتے پر عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیں، فاروق نائیک نے کہا کہ کل تک کا وقت دیں تو پارلیمانی کارروائی کے تحفظ کے نکتے پر مطمئن کروں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے، اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا، اس سوال کا جواب تمام اپوزیشن جماعتوں کے وکلا نے دینا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اہم آئینی نکتہ ہے جس پر فیصلے کے دوررس نتائج ہوں گے، دوسرے فریق کو سننا بھی ضروری ہے تاکہ فیصلہ ہو جائے، آج ہی سن کر فیصلہ دینا ممکن نہیں۔

وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ رولنگ کی بنیاد پر اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے، صدر مملکت، وزیراعظم نگران حکومت کیلئے نام مانگ رہے ہیں، 3 دن میں آئین کے مطابق نام دینا لازمی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، سب کو سن کر فیصلہ ہوگا، کل رضا ربانی اور مخدوم علی خان کے دلائل سن کر دوسرے فریقین کو سنیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے