یمن کے جنوبی صوبہ ابین میں القاعدہ کے مشتبہ جنگجوؤں نے اقوام متحدہ کے پانچ کارکنوں کو اغوا کر لیا ہے۔

یمنی حکام نے ہفتے کے روز اقوام متحدہ کے کارکنوں کے اغوا کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ انھیں جنوبی صوبہ ابین میں اغوا کے بعد کسی نامعلوم مقام پر لے جایا گیا ہے۔ان میں چار یمنی اور ایک غیرملکی شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے ان کارکنوں کے اغوا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ہم اس معاملے سے آگاہ ہیں لیکن واضح وجوہات کی بنا پر فی الوقت کوئی تبصرہ نہیں کررہے ہیں‘‘۔انھوں نے مزید تفصیل نہیں بتائی۔

علاقے کے قبائلی سرداروں کا کہنا ہے کہ وہ یرغمال کارکنوں کی رہائی کے لیے اغوا کاروں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ان کے بہ قول اغوا کاروں نے تاوان اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی قید میں اپنے بعض عسکریت پسند ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

جنوبی عبوری کونسل نے عالمی ادارے کے کارکنوں کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے اسے’’دہشت گردانہ کارروائی‘‘ قراردیا ہے۔یمنی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اقوام متحدہ کے محکمہ سلامتی و تحفظ کے کارکنوں کو نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کیا ہے اور وہ ان کی رہائی کے لیے کام کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ غربت زدہ یمن میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام ہیں۔مسلح قبائلی اورالقاعدہ سے وابستہ جنگجو اپنے قیدیوں کے تبادلے یا نقد رقوم کی وصولی کے لیے سرکاری اہل کاروں یا عالمی اداروں کے کارکنان کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔

جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کو طویل عرصے سے جنگجو گروپ کے عالمی نیٹ ورک کی سب سے خطرناک شاخ سمجھا جاتا رہا ہے اور اس نے ماضی میں یمن سے امریکی سرزمین پر حملے کی کوشش بھی کی تھی۔

یادرہے کہ یمن ستمبر2014ء سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔تب ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے دارالحکومت صنعاء اور ملک کے بیشتر شمالی حصے پرقبضہ کر لیا تھا جس کی وجہ سے بین الاقوامی طورپرتسلیم شدہ حکومت کو جنوبی شہرعدن میں بھاگنے پرمجبور ہونا پڑا تھا۔مارچ 2015ء میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے امریکا کی حمایت سے یمن میں فوجی مداخلت کی تھی تاکہ صدرعبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کو پورے ملک میں بحال کرنے اور حوثیوں کے زیرقبضہ علاقوں کو واگزار کرانے میں مدد دی جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے