افغانستان میں قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے عالمی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کے لیے طالبان انتظامیہ کو سرکاری طور پر تسلیم کریں۔ آج بدھ کے روز کابل میں ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تمام شرائط پوری کر دی گئی ہیں۔

اخوند کا کہنا تھا کہ "میں تمام حکومتوں بالخصوص اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ہمیں تسلیم کرنے کا آغاز کریں”۔ گذشتہ برس ستمبر میں وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اخوند اتنے بڑے پیمانے پر اعلانیہ طور پر سامنے آئے ہیں۔

طالبان تحریک نے گذشتہ برس اگست میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ غیر ملکی قوتیں طالبان انتظامیہ کو تسلیم کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔ مغربی ممالک نے امریکا کی قیادت میں افغان حکومت کے اربوں ڈالر کے بینک کھاتوں کو منجمد کر رکھا ہے۔ ساتھ ہی ترقیاتی امور کے لیے فنڈنگ کو بھی روک دیا ہے جو افغانستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔

تقریبا ایک ہفتہ قبل طالبان حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنا پہلا مالیاتی بجٹ منظور کیا۔ اس میں کوئی بین الاقوامی امداد شامل نہیں ہے۔ وزارت مالیات کے مطابق یہ بجٹ 2022ء کے ابتدائی تین ماہ کو پورا کرتا ہے۔

وزارت مالیات کے ترجمان احمد ولی حقمال کے مطابق "دو دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے جب بین الاقوامی امداد پر اعتماد کے بغیر بجٹ تیار کیا گیا اور یہ ایک بڑی کامیابی ہے”۔

منگل کے روز منظور کیے جانے والے بجٹ کی مالیت 53.9 ارب افغانی (51.6 کروڑ ڈالر کے قریب) ہے۔ یہ رقم 2022ء کی صرف پہلی سہ ماہی کے اخراجات پورا کرتی ہے۔

طالبان حکومت نے اپنے مالیاتی سال کے لیے شمسی تقویم پر انحصار کا فیصلہ کیا جس کے تحت یہ 21 مارچ سے شروع ہوتا ہے۔ احمد ولی حقمال کے مطابق اس تاریخ کے بعد آئندہ بجٹ پیش کر دیا جائے گا جو ابھی تیاری کے مرحلے میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے