راولپنڈی:  ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ڈیل کی باتیں بے بنیاد ہیں، ڈیل سے متعلق خبریں قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں، اس پر جتنی کم بحث کی جائے ملک کے لئے بہتر ہے۔

 ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فروری 2021 میں معاہدے کے بعد ایل او سی پر پورا سال امن رہا، ایل اوسی پر مقامی آبادی کی روزمرہ زندگی میں امن سے تبدیلی آئی، بھارت اندرونی طور پر مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے، بھارتی فوجی قیادت کی طرف سے منفی اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا، بھارتی الزامات ایک پولیٹیکل ایجنڈے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، شام کے پروگرامز میں کہا جاتا ہے سٹیبلشمنٹ نے یہ کردیا وہ کردیا، سٹیبلشمنٹ کو ڈیل اور اس طرح کی باتوں سے باہر رکھا جائے، ڈیل کے حوالے سے باتیں من گھڑت اور قیاس آرائیاں ہیں، ڈیل کی باتیں کرنے والوں سے پوچھا جائے کون ڈیل کی باتیں کر رہا ہے اور اس کے محرکات کیا ہیں، کیا شواہد ہیں۔

معاشی صورتحال سے متعلق ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشی صورتحال کا ہر شعبے میں عمل دخل ہوتا ہے، مگر ہمارے معاشی چیلنجز نئے نہیں ہیں اور اللہ کا شکر ہے مسلح افواج نے ملک کے بجٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی کیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ یوم حق خودارادیت پر کشمیریوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، بھارت جنیوا اور عالمی کنونشنز کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا بازار گرم کر رکھا ہے، کشمیر میں انسانی تاریخ کا بدترین محاصرہ جاری ہے، بھارت ایل او سی پر بسنے والے بے گناہ لوگوں کو شہید کرچکا، بھارت نے خطے کے امن کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔

پاک افغان بارڈر کی صورتحال پر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، پاک، افغان بارڈر پر لگائی باڑ دونوں طرف کے عوام کو تحفظ فراہم کر رہی ہے، پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام 94 فیصد جبکہ پاک ایران بارڈر پر باڑ لگانے کا کام 71 فیصد مکمل ہوچکا، ایک سے دوسری پوسٹ کے درمیان 7 سے 8 کلو میٹر کا فاصلہ ہے، باڑ لگانے میں ہمارے شہدا کا خون شامل ہے، افغانستان سےٖ غیر ملکی افواج کے انخلا کے اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے، افغانستان کی موجودہ صورتحال سنگین، انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے، افغانستان کی صورتحال کا اثر پاکستان پر بھی پڑسکتا ہے۔

آپریشن ردالفسار کے حوالے سے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آپریشن ردالفساد بہت منفرد نوعیت کا تھا، پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے دہشتگرد تنظیموں کا صفایا کیا، انٹیلی جنس ایجنسیوں نے 890 تھریٹ الرٹ جاری کیے، 70 فیصد ممکنہ دہشتگردی کے واقعات روکنے میں مدد حاصل ہوئی، خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر 60 ہزار آپریشن کیے گئے، جن علاقوں میں آپریشن کیے گئے وہاں حالات معمول پر آ رہے ہیں، دہشتگردوں کا بیانیہ ناکام بنانے میں علماء اور میڈیا نے کردار ادا کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ بلوچستان میں 199 ڈویلپمنٹ پروجیکٹس کا آغاز ہوچکا ہے، چیلنجز کے باوجود کسی ترقیاتی منصوبے میں خلل نہیں آنے دیا گیا، 2021 میں قبائلی اضلاع میں اسپتال، مارکیٹیں، تعلیمی ادارے بنائے گئے، تمام منصوبوں کو سکیورٹی مہیا کی جا رہی ہے تاکہ بروقت مکمل ہوں۔

ترجمان پاک فوج سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بھی سوال کیا گیا۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ تمام قیاس آرائی پر مبنی باتیں ہیں،آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق قیاس آرائی نہ کی جائے۔ درخواست ہے کہ ایسی بے بنیاد قیاس آرائیوں پر غور نہ کیا کریں اور نہ ہی ایسی چیزوں کو ہوا دیا کریں۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے سے پاکستان کے مختلف اداروں کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے، مہم کا مقصد اداروں پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہے، ایسی تمام سرگرمیوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان کے لنکس سے بھی آگاہ ہیں، یہ لوگ پہلے بھی ناکام ہوئے تھے اب بھی ناکام ہونگے، اس مہم کا مقصد افواج پاکستان اور عوام میں خلیج پیدا کرنا ہے، فیک نیوز اور جھوٹے پراپیگنڈے سے پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کو ناکامی ہوگی۔

 تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے سیز فائر 9 دسمبر کو ختم ہوچکا ہے، کالعدم ٹی ٹی پی سے گفتگو کا آغاز موجودہ افغان حکومت کی درخواست پر کیا، کراچی میں دہشتگردی، جرائم کے واقعات میں کمی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، طاقت کا استعمال صرف ریاست کا استحقاق ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے