اسلام آباد: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی طرف سے دباؤ کے بعد منی بجٹ کیلئے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر خزانہ نے مالیاتی ضمنی بل ایوان میں پیش کر دیا۔اپوزیشن نے قرار داد کی مخالفت کی۔

تفصیلات کے مطابق اسد قیصر کی زیر صدرت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے ایوان میں رولز معطل کرنے کی قرارداد پیش کردی۔

رولز معطل کرنے کی قرارداد منظور ہوئی جس کے بعد وزیر خزانہ شوکت ترین نے ضمنی مالیاتی بل 2021 (منی بجٹ) قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ اپوزیشن کی جانب سے بل کی ووٹنگ چیلنج کی گئی اور شدید احتجاج کیا گیا اور حکومت کیخلاف نعرے لگائے گئے جبکہ بجٹ نا منظور نا منظور کے نعرے بھی لگائے۔

شگفتہ جمانی اور غزالہ سیفی میں ہاتھ پائی

تاہم اسی شور شرابے میں وزیر خزانہ نے فنانس سپلیمنٹری بل 2021ء سے پہلے ضمنی ایجنڈے کے تحت سٹیٹ بینک کے حوالے سے بل پڑھ دیا۔ اسپیکر ڈائس کے سامنے شگفتہ جمانی اور حکومتی رکن غزالہ سیفی میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔

اپوزیشن کی اکثریت گنتی میں کھڑی نہ ہوئی

اپوزیشن ارکان نے برقی توانائی پیداوار کے حوالے سے آرڈیننس کی مدت میں توسیع کی تحریک پر ووٹنگ کو بھی چیلنج کردیا۔ جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے زبانی ووٹنگ کے بجائے باقاعدہ ووٹنگ کا حکم دے دیا، اسپیکر نے قرارداد کے حق ووٹ دینے والوں کو نشستوں پر کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ تاہم اس پر قرارداد کے حق میں ووٹنگ کے بعد مخالفت کرنے والوں کی ووٹنگ ہوئی تو اپوزیشن کی طرف سے صرف تین ارکان مخالفت میں کھڑے ہوئے، اپوزیشن ارکان کی اکثریت گنتی میں کھڑی نہیں ہوئی۔ حکومت کی جانب بل کے حق میں 145 ووٹ دیئے گئے۔

پاکستان کی خود مختاری سرنڈر نہ کیا جائے: خواجہ آصف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نے اپوزیشن اور پاکستان کے عوام کی زبان بندی کرکے پاکستان کی معاشی خودمختاری بیچ رہے ہیں۔ سپیکر صاحب یہ دن اس پارلیمنٹ اور آپ کی کرسی کے لیے ہماری تاریخ میں اس دن کی حیثیت سے جائے گا جس پر قوم شرمسار ہوگی کہ پارلیمنٹ کس طرح کا کام کر رہی ہے۔ آپ وہ آرڈیننس بحال کر رہے ہیں جو ختم ہوچکے تھے جو آئین کے خلاف ہے، سٹیٹ بینک کا کنٹرول آئی ایم ایف کو دے رہے ہیں، آپ 1200 یا 100 ارب ارب ٹیکس واپس لے کر استثنیٰ دے کر عوام کے اوپر مہنگائی کا پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خدا کے لیے پاکستان کے عوام پر رحم کریں، پاکستان کو نہ بیچیں، آپ نے تین سال یہاں لوٹ مار کی اجازت دی، دوائیوں، گندم اور چینی چوری کرنے کے اجازت نہ دیتے تو یہ نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نیا بجٹ بنانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ پاکستان کی خود مختاری کو ختم نہ کریں، جو ملک معاشی طور پر غلام ہوجاتا ہے، وہ کالونی بن جاتا ہے وہ سرحدی قبضے سے زیادہ ظلم ہے، آپ ہمیں معاشی طور پر غلام کر رہے ہیں، کیا یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت آگئی ہے۔

اپوزیشن اپنے بندوں کوکرسی پرکھڑا نہیں کرسکی، حکومت کیا گرائے گی: اسد عمر

خواجہ آصف کی تقریر کے بعد وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ یہ تکلیف کیوں ہورہی ہے، کچھ ہفتوں سے طوفان کھڑا کیا گیا عمران خان گیا، انہوں نے عوام کو متحرک کرنا تھا اپنے بندوں کوکرسی پرکھڑا نہیں کرسکے، ان کےصرف تین لوگ کرسی پر کھڑے ہوئے، یہ حکومت کیا گرائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کو شرم نہیں آتی، ان کے وزیردفاع کوئی مالی، کوئی دھوبی، نائی کے اقامے پر نوکریاں کر رہے تھے اور ہمیں قومی سلامتی کا درس دے رہے ہیں، مودی کو شادی پر بلایا، یہ کس منہ سے قومی سلامتی کی بات کرتے ہیں، ہم نے بھارتی پائلٹ کو ذلیل کر کے چائے پلا کر بھیجا، شرم کی بات ہوتی ہے یہ پاکستان کے سرنڈر کی بات کرتے ہیں، کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس آنے پر ایک صاحب لندن سے بھاگے ہوئے ’جاب ایپلی کیشن‘ اپ ڈیٹ کر کے آئے، لیگی صدر شہباز شریف نے کہا کورونا لاک ڈاؤن لگا دیں، ملکی کورونا پالیسی کی عالمی اداروں نے تعریف کی، 86 فیصد پاکستانی عوام نے کہا حکومت نے کورونا کے دوران بہترین پالیسی اپنائی۔

اسدعمرنے اپوزیشن کوایکسپائرسیاست دان قراردیتے ہوئے کہا کہ ایکسپائرآرڈیننس کی بڑی ٹیکنکل بات کی گئی، ایکسپائرسیاستدان کی تقریریں سننا ہم پرلازم ہے یا نہیں۔

کیسی قانون سازی ہے اپوزیشن کی کوئی بات سننے کو تیارنہیں: راجہ پرویز اشرف

اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ جس عقل مند نے آپ کو مشورہ دیا اس نے غیرقانونی کام کروایا، وہ چیزیں نہیں دہرانا چاہتا جو لیگی رہنما خواجہ آصف نے کیں، کل ڈپٹی سپیکر کو منی بجٹ کے حوالے سے چہ میگوئیوں بارے بتایا تھا، ڈپٹی سپیکرنے کہا کوئی منی بجٹ پیش نہیں کیا جارہا، آج بل آیا ہے تو آپ تشریف لے آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کوئی پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، جے یوآئی،( ن)لیگ نہیں 22 کروڑعوام کے لیے ہو رہی ہے، یہ کیسی قانون سازی ہے اپوزیشن کی کوئی بات سننے کو تیارنہیں، خواجہ آصف کے سوال پر اسدعمرایوان کو مطمئن نہیں کرسکے۔ پاکستان کے بائیس کروڑعوام آپ کوالیکشن میں تارے دکھائیں گے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت نے سپیکرصاحب کو بھی مصیبت میں ڈال دیا ہے، وزرا کے پاس تجربہ نہیں ان کے پاس پارلیمانی دانش نہیں، یہ طوطے کی طرح بل پڑھ دیتے ،سمجھ نہیں آتی، ان کولگ رہا ہے شائد اب ان کے ساتھ نہیں تو کیا عوام سے انتقام لینا چاہتے ہیں، وزرا کو مہنگائی کا کہتے ہیں تو کہتے ہیں اپوزیشن کی وجہ سے ہے، ساڑھے تین سال الزامات لگا کرضائع کردیئے گئے۔

الیکشن تیسری ترمیم کے آرڈیننس میں 120 دن کی توسیع کی قرارداد منظور

دوسری طرف قومی اسمبلی اجلاس کے دوران الیکشن تیسری ترمیم کے آرڈیننس میں 120 دن کی توسیع کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ قرارداد کی منظوری کے خلاف اپوزیشن نے احتجاج کیا۔

سید نوید قمر نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج ایجنڈے میں مدت ختم ہونے کے بعد آرڈیننس لائے جارہے ہیں، اس ایوان میں نئی نئی روایتیں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔،

مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں مدت سے پہلے آرڈیننس پیش ہوتے ہیں، اس حوالے سے رولز کے مطابق کارروائی چلائی جارہی ہے۔

وفاقی کابینہ اجلاس میں فنانسل ترمیمی بل 2021ء منظور

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ اجلاس میں فنانس ترمیمی بل 2021 کی منظوری دے دی گئی۔

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ اجلاس میں فنانس ترمیمی بل منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے بل کا مسودہ کابینہ میں پیش کیا۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے فنانس ترمیمی بل کے نکات پر بریفنگ دی جس میں بتایا گیا کہ منی بجٹ میں 71 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس اور فون کالز پر مجوزہ ٹیکسز سے متعلق خصوصی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کمیٹی لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس اور فون کالز پر ٹیکسز سے متعلق سفارشات پیش کرے گی۔

کابینہ اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ نے ٹیلی کام اور آئی ٹی پر ٹیکس کی مخالفت کی۔ ذرائع ایم کیو ایم کے مطابق انہوں نے درخواست کی کہ لیپ ٹاپ، ٹیلی کام اور آئی ٹی پر ٹیکس نہ لگایا جائے، ود ہولادنگ ٹیکس 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی مخالفت کی۔

وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہا جا رہا ہے نواز شریف آج آ رہے ہیں یا کل، جب سعودی عرب گئے تب بھی یہی کہا جاتا رہا، ہر 3 ماہ بعد کہا جاتا ہے حکومت مشکل میں ہے، حکومت کوئی مشکل میں نہیں۔ شہباز شریف کی تقریر نوکری کی درخواست ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے