۔6 دسمبر ! آؤ یاد کریں بابر ی مسجد کو

نوید مسعود ہاشمی

۔6 دسمبر1992ء سے لے کر 6 دسمبر2021  ء تک … ان گزرے29 سالوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی  گز ر گیا … مگر شہید بابری مسجد کی محبت

۔6 دسمبر1992ء سے لے کر 6 دسمبر2021  ء تک … ان گزرے29 سالوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی  گز ر گیا … مگر شہید بابری مسجد کی محبت کی شمع آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں فروزاں ہے، گو کہ بھارت کے دہشت گرد وزیراعظم مودی اور بھارتی سپریم کورٹ کے تعاون سے ہندو دہشت گرد بابری مسجد کی جگہ مسلمانوں سے ہتھیانے میں کامیاب رہے، تاہم یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ غزوہ ہند کے ثمرات  میں شہید بابری مسجد اپنی اصل جگہ پر پوری شان و شوکت سے دوبارہ تعمیر ہونا بھی شامل ہوگا، مجھے مسلم ممالک کے غلام حکمرانوں سے اس حوالے سے ذرا برابر بھی خوش فہمی نہیں ہے، ہاں! مجھے اللہ کی مدد اور رحمت پر پورا بھروسہ ہے … جس دن غزوہ ہند کے پرچم تلے فضائے بدر پیدا کر دی گئی وہ دن صرف بابری مسجد ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں انتہائی مظلومانہ انداز میں زندگی بسر کرنے والے25کروڑ مسلمانوں کی آزادی کا دن بھی ہوگا۔
۔1527 ء میں تعمیر ہونے والی عظیم بابری مسجد ایودھیا (اترپردیش) کی ایک تاریخی اور شاہکار مسجد تھی، اس مسجد میں تین پرشکوہ گنبد تھے … ہندو شدت پسندوں نے 1949 ء میں اس مسجد میں ’’رام‘‘ کی مورتی رکھ دی … اس خوبصورت اور عظیم الشان مسجد کو آر ایس ایس، ویشوا  ہندو پریشد اور بی جے پی کے سرکردہ راہنمائوں کی زیرسرپرستی لاکھوں ہندو دہشت گردوں نے  حملہ کرکے6 دسمبر 1992 ء میں شہید کر دیا ، بابری مسجد کو شہید کرنے میں اس وقت کی کانگرس حکومت بھی پوری طرح ملو ث تھی، ایل کے ایڈوانی ، بال ٹھاکرے اوما بھارتی جیسے ہندو شدت پسند لیڈران… نہ صرف دہشت گردوں کو بابری مسجد پر حملے کے لئے اکساتے رہے بلکہ بنفس نفیس خود بھی بابری مسجد پر حملے میں شریک رہے، عالمی دنیا کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتاہے کہ یورپ، امریکہ اور لندن والے بڑے انصاف پسند ہیں … کہنے کی حد تک اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر اور ان کانیٹ ورک بھی دنیا میں موجود ہے … لیکن  ان سب کی دیکھتی آنکھوں کے سامنے ہندو د ہشت گردی کے ’’جن‘‘ نے عظیم بابری مسجد کے پرشکوہ گنبدوں سے لے کر منبر و محراب، صحن، برآمدے حتیٰ کہ دیواریں تک مسمار کر ڈالیں ، ہندوستان ہندو اکثریتی ملک ہے … ہندوئوں نے اپنی  اکثریت، حکومت اور فوج کی طاقت کا فا ئدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی متکبرانہ اور ظالمانہ انداز میں نہ صرف یہ کہ بابری مسجد کو شہید کر ڈالا بلکہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایودھیا سمیت ہندوستان بھر میں بابری مسجد کی شہادت کے خلاف سراپا احتجاج مسلمانوں پر خونی حملے کرکے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا، مسلمانوں کی اربوں روپے کی جائیدادوں کو نذر آتش کیا گیا، سینکڑوں مسلمان زخموں سے چور چور ہسپتالوں میں تڑپتے رہے، بابری مسجد کی شہادت کے بعد مجروح دل مسلمانوں نے انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں کا دروازہ  کھٹکھٹایا،2010 ء میں الہ آبادی ہائی کورٹ کے لکھنو بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ متنازعہ زمین کو تین حصوں  میںتقسیم کر دیا گیا ہے ، ایک حصہ رام مندر ، دوسرا حصہ سنی وقف بورڈ اور تیسرا حصہ نرموہی کھاڑے کو دیا گیا، مگر پھر یہ معاملہ بھارتی سپریم کورٹ میں پہنچ  گیا، سپریم کورٹ نے الہ آباد  ہائی کورٹ کے فیصلے کو روک دیا، مارچ2017 ء میں سپریم کورٹ نے معاملے کو آپسی رضامندی سے حل کرنے کا مشورہ دیا اورپھر بالکل اچانک ہی9 نومبر2019 ء کو سپریم کورٹ نے صدیوں پرانی اجودھیا کی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کاحکم دے دیا، سپریم کورٹ نے بابری مسجد کو شہید کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی… اور مسلمانوں کو پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کی ہدایت بھی دی، ’’کمال‘‘ یہ کہ بھارتی سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ بابری مسجد کو غیر قانونی طریقے سے توڑا گیا اور مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی اور ’’زوال‘‘ یہ کہ اس کے باوجود بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی اجازت دے کر بھارتی سپریم کورٹ نے ذہنی پستی اور ’’شدت پسندی‘‘ کا بدترین مظاہرہ کیا، یادش بخیر، وہ سال2014 ء تھا کہ جب دہشت گرد نریندر مودی نے اپنے انتخابی منشور میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا، پانچ سال کے بعد نریندر مودی کا انتخابی وعدہ بھارتی سپریم کورٹ کے اس متنازعہ فیصلے سے پورا ہوگیا، بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ’’چیف جسٹس‘‘ کا تھا یا پھر نریندر مودی نے چیف جسٹس کی جگہ یہ فیصلہ لکھا؟
جس ملک میں سپریم کورٹ کاچیف جسٹس  ہی فرقہ وارانہ ذہنیت کا حامل ہو، چیف جسٹس  دہلی کے تخت کی لونڈی کاکردار ادا کرنے  والا ہو، اعلیٰ عدلیہ کی کوکھ سے ’’فتنوں‘‘ کو رواج  دینے والے فیصلے برآمد ہوتے ہوں … اس ملک میں انصاف کا عالم کیا ہوگا؟ یہ سوچ کر ہی جھرجھری سی آجاتی ہے۔
چنانچہ قاتل نریندر مودی اور فرقہ پرور اعلیٰ عدلیہ کے اس انتہائی متنازعہ فیصلے نے انڈے بچے دینے شروع کر دیئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد کے بعد اب متھرا کی عیدگاہ مسجد کو شہید کرکے وہاں را م کی مورتیاں رکھنے کے اعلانات شروع ہوگئے ہیں، مودی کے ہندو شدت پسندوں کاکہنا ہے کہ یہ مسجد17 ویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں ’’بھگوان کرشن‘‘‘ کی جائے پیدائش پر موجود مندر کے ایک حصے کو منہدم کرکے بنائی گئی تھی۔
یاد کیجئے! وہ دن کہ جب آر ایس ایس اور ویشو ہندو پریشد کے لاکھوں دہشت گردوں نے نعرہ لگایا تھا کہ ’’ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، کاشی ، متھرا، ابھی باقی ہے‘‘ مسلمانوں کے لئے یہ خبر بھی نہایت تشویش ناک ہے کہ متھرا کی ’’شاہی عید گاہ مسجد‘‘ کو شہید کرنے کے لئے عدالت میں درخواست بھی جمع کروائی گئی ہے … جسے عدالت نے منظور بھی کرلیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ میں پایا جانے والا ’’مودی‘‘ مائنڈ سیٹ  ’’رام جنم بھومی‘‘ اور ’’بابری مسجد‘‘ کے تنازعے والے فیصلے کو یہاںبھی دوہراتا ہے یا پھر یہاں مسلمانوں کو انصاف دیا جائے گا۔
سچی بات ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے اس ردعمل کا اظہار نہیں کیا جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی، مسلم ممالک کے حکمرانوں، او آئی سی اور عالمی طاقتوں کی بدترین بے حسی اور شقاوت قلبی کے  سبب اب ہندو دہشت وحشت کا ’’جن‘‘ ایک کے بعد دوسری مسجد کو ڈھانے کیلئے منصوبہ بندی کرچکا ہے، ہندوستان کے مسلمان تو اقلیت بھی ہیں اور غلام بھی … مگر کیا ، پاکستان کے 22 کروڑ مسلمان ، حکمران، عرب دنیا کے حکمران بھی غلام ہیں؟ اگر نہیں؟ تو پھر … پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں کو ہندوستان کی  مسجدوں اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے بھرپور اور جاندار آواز اٹھانی چاہیے۔
بشکریہ اوصاف اخبار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے