بابری مسجد شریف

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 522)

اللہ تعالیٰ اپنے اُس بندے پر ’’خاص رحمت‘‘ فرماتے ہیں… جو لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتا ہو… نیکی کی طرف بلاتا ہو…مبارک ہو دین کی دعوت دینے والوں کو…مبارک ہو جہاد کی طرف بلانے والوں کو…

اللہ تعالیٰ اپنے اُس بندے سے ’’خاص محبت‘‘ فرماتے ہیں… جو دوسروں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو…

زیادہ نفع پہنچانا یہ ہے کہ…کسی کو ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کے ساتھ جوڑ دیا جائے… دین کا راستہ سمجھادیا جائے…جہنم کی آگ سے بچایا جائے…اے ایمان والو! خود کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچائو…

اِس بار کا چھ دسمبر

اسلام میں نہ کوئی سالگرہ ہے نہ برسی…نہ عُرس ہے نہ ماتم…نہ تاریخِ ولادت کا جشن ہے اور نہ تاریخِ وفات کا غم…پھر بھی اس بار چھ دسمبر کو ’’بابری مسجد شریف‘‘ بہت یاد آئی…چھ دسمبر ۱۹۹۲ئ؁ بابری مسجد کو شہید کیا گیا… دل بہت چاہا کہ اپنے غم اور درد کو بانٹا جائے، کم از کم ایک مکتوب ہی چل پڑے…سائیں حذیفہ شہید بھی یاد آئے وہ ’’بابری مسجد‘‘ کو اپنی ماں کہتے تھے…وہ دراز قد سجیلا پاملا شہید بھی یاد آیا جو بابری مسجد کو ’’امی‘‘ کہا کرتا تھا…اور وہ حسین وجمیل استاذ طلحہ بھی… بابری مسجد کے یہ بیٹے اپنی ماں کی طرح شہید ہوکر ماں کے قدموں میں جا بسے…ہر مسجد حقیقت میں کعبہ شریف کا ٹکڑا اور جنت کا حصہ ہوتی ہے…

قیامت کے دن ہر مسجد کی زمین کو کعبہ شریف کی مسجد کے ساتھ جوڑ کر…جنت میں شامل کردیا جائے گا… ہر مسجد کی ایک روحانی سلطنت ہوتی ہے… جو چیز مسجد کے ساتھ جڑ جائے اُس کی قیمت اور قدر بڑھ جاتی ہے…

ہماری دعوت جہاد…جب بابری مسجد کے ساتھ جڑی تو…یہ پاکیزہ درد پورے عالم اسلام میں پھیل گیا…یہ ’’بابری مسجد‘‘ کی کھلی کرامت تھی کہ…اس پر ہونے والے بیان نے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی زندگی بدل دی اور سنوار دی …بے شمار مسلمان دین پر آئے، جہاد پر آئے… بڑی عجیب داستان ہے…میں سوچتا ہوں اُن شہداء کرام کا کیا مقام ہوگا جو ’’بابری مسجد‘‘ پر جان نچھاور کر گئے…مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ بابری مسجد ضرور دوبارہ تعمیر ہوگی…وہاں کے میناروں سے ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کی صدا گونجے گی… نمازیوں کی لمبی قطاریں بابری مسجد کے باہر لگیں گی… شہدائِ بابری مسجد کی ارواح…ان نمازیوں کا استقبال کریں گی…اور وہاں اہل ایمان اور اہل توحید کا مجمع اتنا ہوگا کہ اندر پہنچ کر سجدہ کرنے والے خود کو خوش نصیب محسوس کریں گے…ان شاء اللہ، ان شاء اللہ، ان شاء اللہ یہ سب کچھ ہوگا…بابری مسجد کا قاتل ’’ہنس راج‘‘ مرچکا… ایڈوانی مرنے والا ہے… اور جیتے جی بھی مرچکا ہے… بابری مسجد کو گرانے والے کئی افراد دردناک عذابوں کا شکار ہوگئے… اور کئی ایک مسلمان ہوچکے… جہاد تیزی سے بڑھ رہا ہے…غزوہ ہند کا سورج پھر آنکھیں کھول رہا ہے…سلام ہو پیاری بابری مسجد…سلام، بہت سلام…

خطابت کا مقام

بات جماعت کے ’’اجتماعات‘‘ کی چل رہی ہے… الحمدللہ پورے ملک میں ’’اجتماعات‘‘ کی ترتیب منظم ہوتی جارہی ہے… اس بار جو کار گزاری کل اور پرسوں آئی…اس میں روشنی محسوس ہوئی…اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا…

ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ…اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی بِنِعْمَتِہِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتْ…

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنے کی طاقت عطا فرمائی ہے…کسی کو زیادہ، کسی کو کم…وہ جو اپنی بات مکمل یقین سے کرتے ہیں…اور سننے والوں کے حواس پر چھا جاتے ہیں…ان کو ’’خطیب‘‘ کہا جاتا ہے…

کسی بھی نظریے اور کسی بھی قوم کی کامیابی میں…خطیب کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے…

فرعون بھی ایک ماہر خطیب تھا…اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ صلاحیت عطاء فرمائی تھی کہ…جب بولتا تھا تو سننے والوں کو اپنے رنگ میں اور اپنے اثر میں لے آتا تھا…مگر اس نے اپنی اس ’’صلاحیت‘‘ کا غلط استعمال کیا…

اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی کسی بھی خاص صلاحیت کو…غلط استعمال کرنے والے ’’عذابِ الٰہی‘‘ کا شکار ہوجاتے ہیں… قرآن مجید نے اس کی عبرتناک مثالیں بیان فرمائی ہیں…کبھی موقع ملے تو ضرور دیکھ لیجئے گا…دعاء اور اسم اعظم کی صلاحیت والا بلعم باعورائ…انفرادی اور امتیازی صلاحیتوں والا ولید بن مغیرہ…معاشی صلاحیتوں سے مالا مال قارون وغیرہم…فرعون نے اپنی خطابت کے زور سے کئی سو سال تک اپنی قوم پر بلا شرکت غیرے حکومت کی… وہ جب کسی بات یا نظریے کو بیان کرتا تو سننے والے…خود کو اور اپنی رائے کو حقیر سمجھنے لگ جاتے اور فرعون کی بات کے قائل ہوجاتے…اسی صورتحال کو دیکھ کر اس نے ’’ربّ اعلیٰ‘‘ ہونے کا دعویٰ کردیا…

پھر عربوں میں خطابت کا بڑا زور تھا… عربوں کا سارا فخر، غلبہ اور احساس برتری ’’خطابت‘‘ کے ستونوں پر کھڑا تھا…خود کو بڑا سمجھنا، عظیم سمجھنا، دوسروں کو حقیر سمجھنا… اور دشمنوں سے مقابلے کے لیے اپنے اندر عزم اور جوش رکھنا…یہ تین عناصر تھے…اور ان تینوں کو قائم رکھنے کے لیے دماغ اڑانے والے ’’خطبائ‘‘ کی ضرورت تھی…ایسے خطباء جو قوم کو ان کی عظمت کا احساس دلاسکیں… جو دوسری قوموں کی حقارت اُن کے دلوں میں بٹھا سکیں…اور اپنی قوم کو عزت کی خاطر لڑنے مرنے اور مارنے پر اُبھارسکیں… تفاخر، تحقیر اور تحریض …اپنے لیے فخر، دوسروں کے لیے حقارت… اور جذبات ابھارنا… عرب خطباء نے صدیوں تک …یہ تینوں کام بہت مہارت سے کئے… پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور اسلام آگیا…اسلام  نے ’’خطابت‘‘ کی حوصلہ افزائی کی…نصاب بھی وہی رکھا مگر اس کی اصلاح فرمادی…

تفاخر…اسلام پر، ایمان پر شکر… تحقیر … کفر کی، شیطان کی اور گناہوں کی… اور تحریض …جہاد فی سبیل اللہ کی، ہجرت کی…اور قربانی کی…

سبحان اللہ! اسلام نے ’’خطیب‘‘ کو وہ زبان دی…جو نہ فرعون کے پاس تھی اور نہ جاہلی عربوں کے پاس… اسلام نے ’’خطیب‘‘ کو وہ مقام دیا کہ…ساری مخلوق اس کی ممنون اور شکر گزار ہوئی … اور اسلام نے ’’خطیب‘‘ کو…قومی تفاخر اور فخر بازی سے ہٹاکر…شکر پر لگادیا…اسلام اور ایمان پر شکر…قوموں، قبیلوں، اورعلاقوں کی تحقیر اور مذمت سے ہٹا کر…کفر، شیطان اور گنا ہ کی مذمت اور تحقیرپر لگادیا …اور اپنی قوم، قبیلے اور نام پر لڑنے مرنے کی ترغیب کو… اللہ تعالیٰ کے لئے جان دینے کی دعوت میں تبدیل فرمادیا…اسلام میں’’خطیب‘‘ کا جو اجر، مقام اور رُتبہ ہے، دوسرے لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے… ’’خطیب‘‘ کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کا وعدہ ہے، فرشتوں کی طرف سے خصوصی دعائیں اور استغفار… اور تمام مخلوق کی طرف سے اس کے لئے خصوصی دعائوں اور استغفار کی بشارت ہے… خطیب کی بات کو’’ احسن القول‘‘(یعنی سب سے بہترین بات قرار دیا گیا)… اور خطیب کے اجر کا سلسلہ قیامت تک پھیلا دیا گیا… خطیب اللہ تعالیٰ کے دین کا ناصر ہے… اور خطیب اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے… بس شرط یہ کہ …خطیب… واقعی خطیبِ اسلام ہو … اللہ تعالیٰ کے لئے بولتا ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہو… اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں جگاتا ہو… اللہ تعالیٰ کے دین کی غیرت اُبھارتا ہو… علم کے ساتھ بولتا ہو… یقین کے ساتھ بولتا ہو… سلیقے اور تاثیر کے ساتھ بولتا ہو…اور خود بھی دین پر عمل کرتا ہو…اہل یونان نے’’خطابت‘‘ کو ایک فن قرار دے کر اس کے طریقے اور اسلوب مقرر کئے ہیں… مگر اسلام میں خطابت کوئی باقاعدہ’’ فن‘‘ نہیں ہے… یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا فرمودہ ایک وہبی نعمت ہے… اور اس نعمت کی حفاظت تین چیزوں سے ہوتی ہے…۱۔علم،۲۔عمل،۳۔توجہ الی اللہ…مطلب یہ کہ آپ جو کچھ بیان کر رہے ہیں اس کا آپ کو مکمل علم ہو… دوسرا یہ کہ آپ خود بھی اس پر عمل کرتے ہوں… اور تیسرا یہ کہ بیان اور خطابت سے پہلے اور اس کے دوران آپ کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو… اللہ تعالیٰ سے مانگ کر بیان کرنے جائیں اور… بیان کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں… خطیب کے لئے نہ کوئی خاص ٹوپی ضرورت ہے… اور نہ کوئی خاص لباس… نہ کسی خاص لہجے کی ضرورت ہے اور نہ بلند آواز کی… بس ضرورت ہے تو صرف تین چیزوں کی…

۱)اخلاص(۲)یقین(۳)تاثیر

اخلاص یہ کہ …خطیب کی نیت، اللہ تعالیٰ کی رضا ہو… اور کچھ بھی نہیں… یقین یہ کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے او ر سمجھا رہا ہے خود اس کے دل میں… اس کا کامل یقین ہو… اور تاثیر یہ کہ حقیقت کو دلوں کا مزاج بنا سکے… اس کی مثال یہ کہ ہر کلمہ گو مسلمان کو معلوم ہے کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے … مگر پھر بھی بہت سے لوگ نماز ادا نہیں کرتے … خطیب وہ ہے جو نماز کی فرضیت کو ایسے طریقے سے بیان کرے کہ یہ فرضیت لوگوں کے دلوں کا مزاج اور رنگ بن جائے تب ان کے لئے ممکن ہی نہیں ہوگا کہ… ایک نماز بھی چھوڑ سکیں…

جیسے خنزیر کے گوشت کی حرمت… ہم مسلمانوں کے دل کامزاج اور رنگ بن چکی ہے… کوئی گناہ گارمسلمان بھی یہ گوشت نہیں کھا سکتا … آج دین اسلام کو…مخلص،مؤثر اور باعمل ’’خطبائ‘‘ کی ضرورت ہے…جویہ ضرورت پوری کرے گا وہ بڑا مقام پائے گا… اور دنوں میں صدیاں کمائے گا ان شاء اللہ…

 اِجتماعات کا سہ نکاتی نصاب

جب چند مسلمان … اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جمع ہوں… تو وہ اللہ تعالیٰ کے دین کی باتیں کریں… وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں… وہ کتاب اللہ کی تلاوت اور تعلیم و تدریس کریں… وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک دوسرے کو بلائیں، تو ایسے اجتماعات … اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں… ان اجتماعات سے دل زندہ ہوتے ہیں، ایمان جڑ پکڑتا ہے… نفس کا تزکیہ ہوتا ہے… ہمت بڑھتی ہے … اور شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے… شیطان لوگوں کو ہر وقت گناہ پر جمع کرنے کی محنت کرتا ہے… وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بغاوت پر اکٹھا کرتا ہے… شیطان جانتا ہے کہ اجتماعی گناہ… انفرادی گناہ سے کم ازکم ستر گنا زیادہ خطرناک ہوتے ہیں… کیونکہ دلوں کی سیاہی ایک دوسرے کی طرف جلدی منتقل ہوتی ہے اور اجتماعی گناہ کے نقصانات تیزی سے پھیلتے ہیں… سینما، کلب، پارٹیاں، شراب خانے اور معلوم نہیں کیا کیا… حتی کے شادی بیاہ کی گناہ آلود مجالس اور بدعات و خرافات کی مجلسیں… اس لئے جب چند مسلمان اس پورے شیطانی نیٹ ورک سے کٹ کر… خالص اللہ تعالیٰ کے لئے جمع ہو تے ہیں تو اس سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے… دلوں کی روشنی ایک دوسرے کی طرف منتقل ہوتی ہے … اور اجتماعی محنت کا اثر زمین میں دور دور تک … اور زمانے میں دور دور تک پھیل جاتا ہے… زمانے میں اثر پھیلنے کا مطلب یہ کہ… اگلی نسلوں تک بھی اس مبارک محنت کے آثار پہنچتے ہیں…

اب قرآن وسنت میں غور کریں… ایک طرف مجالس ذکر کے فضائل ہیں… دوسری طرف دعوت الی اللہ کے فضائل ہیں… اور تیسری طرف توبہ الی اللہ کے فضائل ہیں… ان تمام فضائل کی آیات اور احایث کو جمع کریں تو…انہیں پڑھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے… اور انسان کی روح خود ان مبارک مجلسوں اور اجتماعات کی طرف دوڑتی ہے… قرآن و احادیث پر غور و فکر کے بعد اپنے ’’اجتماعات‘‘ کو ’’جامع الخیرات‘‘ بنانے کے لئے یہی تین نکاتی نصاب طے کیا گیا ہے…

۱)ذکر اللہ (۲)دعوت الی اللہ(۳)توبہ الی اللہ

الحمد للہ اس ہفتہ سے جماعتی ’’اجتماعات‘‘ میں یہ تینوں عمل شروع ہوچکے ہیں… خصوصاً تیسرا کام کمزور تھا… الحمد للہ اس کی طرف محنت کا رخ ہوا ہے… امید ہے کہ بہت اچھے نتائج و اثرات سامنے آئیں گے… ان شاء اللہ

لا الہ الااللّٰہ، لا الہ الااللّٰہ، لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ صحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

بشکریہ ہفتہ روزہ القلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے