افغانستان میں طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ نے خواتین کے حقوق سے متعلق ایک خصوصی فرمان جاری کیا ہے جس میں شادی، بیوہ خواتین اور وراثت کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ 

۔

طالبان کی جانب سے جمعہ کو جاری ہونے والے اس بیان کے مطابق ہیبت اللہ اخوندزادہ نے تمام متعلقہ تنظیموں، علما کرام اور قبائلی عمائدین کو خواتین کے حقوق کے نفاذ کے لیے سنجیدہ اقدام کرنے کی ہدایت کی ہے۔

افغان طالبان نے 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکمرانی کے دوران سخت قوانین نافذ کیے تھے جن کے تحت نہ صرف خواتین کے لیے تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کر دیے گئے بلکہ ’فحاشی‘ کے الزام میں سنگسار بھی کیا جاتا تھا۔

اب جب طالبان رواں سال اگست میں دوبارہ اقتدار میں آئے تو متعدد شعبوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین خوف کا شکارتھیں، لیکن اب خواتین افغانستان میں اپنے آپ کر محفوظ سمجھتیں ہیں ۔

موجودہ افغان حکومت کو اپنے ملک میں خواتین کے حقوق خصوصا تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے بین الاقوامی شدید دباؤ اور تنقید کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے طالبان سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اپنے فرمان میں وزارت حج و مذہبی امور، وزارت اطلاعات و ثقافت اور عدالت عظمیٰ کو بھی ہدایات جاری کی ہیں جبکہ بیان کے مطابق گورنرز اور ضلعی گورنرز اس فرمان کے نفاذ میں متعلقہ محکموں کے ساتھ تعاون کریں گے۔

طالبان سربراہ کے فرمان کے مطابق:

طالبان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس فرمان نفاذ کے لیے متعلقہ تنظیموں ہدایت بھی جاری کی گئی ہیں۔

جاری ہدایات کے مطابق وزارت حج و مذہبی امور علما کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ وہ اپنے خطوط کے ذریعے لوگوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی دیں اور یہ تبلیغ کریں کہ خواتین پر ظلم کرنا اور انہیں ان کا حق نہ دینا اللہ کی ناراضگی، عذاب اور غصے کا سبب بنے گا۔

’وزارت اطلاعات و ثقافت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ تحریری اور آڈیو میں اپنے ذرائع سے خواتین کے حقوق سے متعلق مضامین شائع کریں اور ساتھ ہی مصنفین اور کارکنوں کو خواتین کے حقوق سے متعلق مفید مضامین شائع کرنے کی ترغیب دیں تاکہ علما اور عوام کی خواتین کے شرعی حقوق کے بارے میں توجہ مبذول کرائی جا سکے، تاکہ جاری ظلم و ستم کو روکا جا سکے۔‘

اس کے علاوہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ تمام عدالتوں کو لازمی ہدایت جاری کرے کہ وہ خواتین کے حقوق خصوصاً بیواؤں کے حقوق اور ان کے جبر کے لیے درخواستوں پر مناسب اور اصولی انداز میں غور کریں تاکہ خواتین کو ظلم سے نجات اور ان کے شرعی حقوق کے حصول سے محروم نہ کیا جا سکے۔‘

’گورنرز اور ضلعی گورنروں کو اس فرمان کے نفاذ میں نامزد وزارتوں اور سپریم کورٹ کے ساتھ جامع تعاون کرنا چاہیے۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے