یورپی یونین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے افغانستان کے ہوائی اڈوں کے آپریشنز متحرک رکھنے کے لیے مدد مانگی ہے۔

یورپی یونین کی جانب سے اتوار کو جاری ایک اعلامیے کے مطابق یورپی یونین کے حکام اور طالبان کے وفود کے درمیان ملاقات میں طالبان کی عبوری حکومت کے عہدیداروں سے افغانستان کے انسانی بحران پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا گیا۔

دونوں فریقین میں یہ ملاقات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مابین مزاکرات سے قبل ہوئی، جو کہ پیر (آج) سے شروع ہونے ہیں۔

یورپی یونین کی یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’مذاکرات کا مطلب یورپی یونین کی جانب سے عبوری (طالبان) حکومت کو تسلیم کرنا نہیں ہے‘ بلکہ یہ یورپی یونین اور افغان عوام کے مفاد میں یورپی یونین کی سرگرمیوں کا حصہ ہے۔

طالبان وفد کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی کر رہے تھے، ان کے ساتھ عبوری وزرائے تعلیم و صحت، مرکزی بینک کے قائم مقام گورنر اور وزارت خارجہ، خزانہ اور داخلہ اور انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے حکام بھی شامل تھے۔

یورپی یونین کی طرف سے خصوصی ایلچی برائے افغانستان ٹومس نکلاسن اور یورپی کمیشن سروس کے حکام بھی تھے جو انسانی امداد، بین الاقوامی شراکت داری، اور ہجرت کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

یورپی یونین کے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے ان افغانوں کے لیے ’عام معافی‘ کے اپنے وعدے پر قائم رہنے کا عزم کیا جنہوں نے دو دہائیوں تک مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ کام کیا۔

اے ایف پی کے مطابق، طالبان نے بھی افغانوں اور غیر ملکیوں کو وہاں سے نکلنے کی اجازت دینے کا دوبارہ عہد کیا، لیکن ’ہوائی اڈوں کے آپریشن کو برقرار رکھنے کے لیے مدد کی درخواست کی‘ تاکہ ایسا ممکن ہو سکے۔

اعلامیے میں کہا گیا، ’دونوں فریقوں نے افغانستان میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا،‘ اور یورپی یونین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ افغانستان کو امداد فراہم کرتا رہے گا۔

اعلامیے کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے طالبان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ایک ’جامع حکومت‘ تشکیل دیں، جمہوریت کو فروغ دیں، لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو یقینی بنائیں، اور افغانستان کو کسی ایسے گروہ کے اڈے کے طور پر کام کرنے سے روکیں جو ’دوسروں کی سلامتی کو خطرہ ہو۔‘

اعلامیے میں یہ بھی تجویز شامل تھی کہ اگر طالبان یورپی یونین کی شرائط پر پورا اترتے ہیں، تو اس سے افغانستان کے لیے مزید مالی معاونت کا امکان پیدا ہوسکتا ہے لیکن وہ صرف ’افغان عوام کے براہ راست فائدے کے لیے ہوگا۔‘

بیان کے مطابق، طالبان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ’اسلامی اصولوں کے مطابق‘ انسانی حقوق کو برقرار رکھیں گے اور بند ہوجانے والے سفارتی مشنوں کی واپسی کا خیرمقدم کریں گے۔

رواں سال جون میں ترکی نے افغان حکومت کو پیش کش کی تھی کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی حفاظت اور اسے چلانے کے لیے وہ اپنے فوجی روک سکتا ہے۔ تاہم طالبان، جو اس وقت حکومت میں نہیں تھے، نے اس پیشکش کی ’سختی سے مخالفت‘ کی تھی۔

اس وقت افعانستان میں ترکی کے پانچ سو سے زائد فوجی موجود تھے جو افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیے نیٹو مشن کا حصہ تھے۔

پیش کش کی مخالف میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم کسی بھی ملک کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی فوج کو یہاں رکھیں، چاہے وہ امریکہ ہو یا ترکی۔ ہم اس پر متفق نہیں۔‘

دوسری جانب ترک اخبار ڈیلی صبا میں نومبر میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، ترکی اور قطر مل کر کابل کے ایئرپورٹ پر کام کرہے ہیں تاکہ بین الاقوامی پروازیں بحال رہ سکیں۔

خبر کے مطابق امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد ترک اور قطری تکنیکی ٹیمیں کابل کے ہوئی اڈے پر کام کر رہی ہیں تاکہ اس کو عالمی معیار کے مطابق لا سکیں، مگر فی الحال مرمتی کام ابھی بین الاقوامی پروازوں کی آمد و رفت سے قبل جاری ہے۔

اس سے قبل اگست میں افغانستان کے امریکی انخلا کے دوران کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دو دھماکوں کے نتیجے میں 13 امریکی فوجیوں اور 60 افغان شہریوں سمیت 72 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ایک افغان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ واقعے میں 60 افغان شہری ہلاک جبکہ 143 زخمی ہوئے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے