امارت اسلامیہ افغانستان کے نگران وزیرخارجہ کا امریکی کانگریس کے نام کھلا خط

امارت اسلامیہ افغانستان
وزارت خارجہ

۱۴۴۳/۴/۱۲ھ ق- 2021/11/17م
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے محترم اراکین کانگریس کے لیے نیک تمنائیں!۔
افغانستان کی نئی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی نیک خواہشات اور امیدیں پیش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے کچھ باتیں آپ سے شریک کروں۔
رواں سال 2021 ءمیں افغانستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے سو سال پورے ہورہے ہیں۔ افغانستان کی آزادی واستقلال کے بعد سب سے پہلے ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے 1921ء میں افغانستان کی آزاد حکومت کو تسلیم کیا۔ 1935ء میں دونوں حکومتوں کے درمیان سفارتی تعلقات کا آغاز ہوگیا۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے  تعلقات میں بھی بہت اونچ نیچ آئی ہے۔ بلاشبہ7 اکتوبر 2001ء کے بعد بیس سالہ جنگ سے افغان ملت اور امریکا کے تعلقات میں تناؤ آیا ہے مگر خوش قسمتی سے اس طویل جنگ کا اختتام ایک دوطرفہ معاہدے کے نتیجے میں ذمہ دارانہ طریقے سے حل  پر ہوا ہے۔دوحہ معاہدے میں مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان مثبت تعلقات کا پیشگی ذکر کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دوحہ معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا نیا باب کھلے گا جو دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ایسے حالات میں جب افغانستان میں جنگ جاری تھی ہم نے 2011ء سے دوحہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے تین اداروں کے ساتھ مذاکرات کے بہت سے مراحل طے کیے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں امارت اسلامیہ افغانستان سابقہ انتظامیہ کے سربراہ کے غیر ذمہ دارانہ فرار کے بعد عوام خصوصا کابل کے شہریوں کے مطالبے پر اقتدار کا خلاء پر کرنے اور بدامنی کا راستہ روکنے کے لیے کابل میں داخل ہوئی۔ اس طرح  ہم نے ایک خود مختار حکومت کی حیثیت سے افغانستان کے معاملات کی لگامیں سنبھالیں اور ملک کے شہریوں کی خوشحالی اور سکھ کے لیے کام کا آغاز کیا۔ امارت اسلامیہ افغانستان ایک آزاد اور ذمہ دار حکومت کے طورپر امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک  کے ساتھ تعلقات کی خواہش مند ہے۔
افغانستان چالیس سالہ جنگ کے بعد ایک متحد، ذمہ دار اور کرپشن سے پاک حکومت کا مالک بنا ہے۔اچھی حکومتداری، امن اور شفافیت کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ اقتدار کے جزیروں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ کرپشن، اغواء، قبضہ گیری اور دیگر حق تلفیوں کے عوامل کا خاتمہ کیا جاچکا ہے۔ ملک میں مکمل امن وامان قائم کیا جاچکا ہے۔ خطے اور دنیا کو افغانستان کی سرزمین سے کوئی خطرہ درپیش نہیں اور مثبت تعاون کے لیے حالات سازگار ہوچکے ہیں۔ اب افغانستان کی تعمیر اور ترقی کے لیے مواقع مہیا ہیں۔ مستقبل میں افغانستان کی صنعت، زراعت اور معدینیات کی تلاش میں ریاست متحدہ امریکہ بھی سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ نئی حکومت کے اعلان کے ساتھ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ہمارے مرکزی بینک کے ذخائر پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہ ہماری توقع اور دوحہ معاہدے کے خلاف ہے۔ افغانستان کے عوام کا حق ہے کہ عشروں کی جنگ کے بعد انہیں جانی تحفظ بھی حاصل ہو اور اقتصادی طورپر بھی پرامن اور پرسکون ہوں۔اس وقت ہمارے عوام کا بنیادی مسئلہ اقتصادی تحفظ واطمینان ہے اور ان معاشی خدشات کے ریشے امریکی حکومت کی جانب سے ہمارے عوام کے مالی ذخائر پر پابندیوں میں پیوست ہیں۔
فروری 2020ء میں دوحہ معاہدے پر دستخط کے بعد ہم اب  تک ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں بھی مصروف نہیں رہے، اب بھی ہم ایک دوسرے کے فوجی مخالفین نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے مالی ذخائر پر پابندیوں کی کیا منطق ہوسکتی ہے؟
ہمارا خیال ہے کہ دونوں فریق کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ مستقبل میں مثبت تعلقات رکھیں اور ماضی کے تلخ دورانیے سے سبق سیکھیں۔ ایسے حالات میں جب ہمیں مثبت تعلقات کے لیے بہترمواقع میسر ہیں اس کے باوجود پابندیوں اور دباو کے آپشن کا استعمال ہمارے تعلقات کی بہتری میں معاون نہیں ہوگا۔
ہم عالمی برادری اور امریکہ کے خدشات جانتے ہیں ، اعتماد سازی کے لیے دونوں فریق کو چاہیے کہ مثبت قدم اٹھائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ افغانستان کا سرمایہ منجمد کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ یہ امریکی عوام کا مطالبہ ہے۔ اس لیے آپ کی حکومت کو چاہیے کہ مذکورہ سرمایے سے پابندی ہٹادیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اگر موجودہ حالت اسی طرح رہے تو افغانستان کی حکومت اور عوام مشکلات کا شکار ہوجائیں گے،بلکہ یہ خطے اور دنیا میں وسیع پیمانے پر نقل مکانی کا باعث ہوگا اور دنیا کو انسانی اور اقتصادی مسائل درپیش ہوجائیں گے۔ سرمایے کے انجماد اور اقتصادی پابندیوں سے افغانستان میں صحت، تعلیم اور دیگر عوامی خدمات کے ان شعبوں کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے  جس سے عام عوام فائدہ اٹھارہے ہیں۔ ان بنیادی شعبوں کو نقصان پہنچنے سے افغانستان کے عام عوام کو نقصان ہوگا اور یہ امریکہ کے متعلق افغان عوام میں انتہائی نفرت انگیز تاثر کا باعث ہوگا۔
دوسری بات یہ کہ اس وقت افغانستان میں شدید سردیوں کا موسم آنے والا ہے۔ ایسے حالات میں جب ہمارا ملک کرونا کی لہر، خشک سالی، جنگوں اور غربت کے ہاتھوں پامال ہوچکا ہے، امریکہ کی جانب سے پابندیوں نے تجارت اور کاروبار کے علاوہ انسانی تعاون کی حالت بھی متاثر کردی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی تعاون کے اداروں کے اندازوں کے مطابق اگر یہ حالت جاری رہی تو افغانستان آئندہ موسم سرما میں شدید مسائل کا شکار ہوجائے گا۔ بھوک سے ایک بچے کے بلکنے، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث ایک ماں کے جان سے گذرنے اور روزگار، بھوک، پوشاک، دوائیوں اور دیگر بنیادی ضروریات سے عام افغان شہری کی محرومی کی کوئی سیاسی توجیہ اور منطق نہیں ہوسکتی۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت اور عوام کی حیثیت کو بھی نقصان پہنچائے گا کیوں کہ یہ صرف اور صرف ایک انسانی معاملہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کانگریس کے اراکین اس حوالے سے غور وفکر کریں گے،امریکی حکام کی پابندیوں اور یک طرفہ اور غیر منصفانہ سلوک کا عادلانہ نگاہ سے جائزہ لیں گے اور اس انسانی معاملے کو سطحی انداز میں نہیں لیں گے۔
اپنی گفتگو کے آخر میں ریاست ہائے متحدہ کی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ افغانستان کے حالیہ انسانی و اقتصادی بحران کے حل میں ذمہ دارانہ کردار ادا کریں تاکہ ہمارے تعلقات کے دروازے کھل جائیں، جس کے نتیجے میں افغانستان کے مرکزی بینک کے ذخائر کھول  دیے جائیں اور ہمارے اکاونٹس سے پابندیاں ہٹادی جائیں۔
افغانستان کی وزارت خارجہ اس موقع پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کانگریس کے محترم اراکین کو اپنے درجہ بالا ملاحظات کا اطمینان دلاتی ہے۔
نوازش
مولوی امیر خان متقی
نگران وزیر خارجہ افغانستان
۱۴۴۳/۴/۱۲ھ ق
۱۴۰۰/۸/۲۶ھ ش- 2021/11/17

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے