اسلام پسندڈاکٹر عبدالقدیر خان ؒ نور اللہ مرقدہ

نوید مسعود ہاشمی

کہاں رسواکن ڈکٹیٹر پرویز مشرف اور کہاں قوم کے دلوں پہ حکمرانی کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیرؒ؟ کیا کبھی ریت کا ذرہ بھی آسمان کے چاند کے ساتھ مقابلے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ فواد چوہدریوں اور شیخ رشیدوں کی نہ تعزیت کے محتاج ہیں اور نہ خراج تحسین کے ، ایچ ایٹ کے قبرستان کی گود میں آرام کرنے والے عبدالقدیر خانؒ صرف پاکستانی تاریخ ہی نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر زندہ رہیں گے جبکہ رسواکن ڈکٹیٹر اور اس کے راتب خور کوڑے دان کی نذر ہو جائیں گے۔ (ان شاء اللہ)

وہ چلتا پھرتا ’’پاکستان‘‘ تھے اللہ کے بعد ’’پاکستان‘‘ کے سب سے بڑے محافظ کے طور پر جانے جاتے تھے، وہ ’’پاکستان‘‘ کا ماضی بھی تھے، حال بھی تھے اور مستقبل بھی، رسوائے زمانہ پرویز مشرف نے انہیں ٹی وی پر لا کر ذلیل کرنے کی کوشش کی، لیکن خود رسوائیوں کے سمندر میں جا گرا، پرویز مشرف نے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کی کوشش کی، لیکن خود پاکستان کی دھرتی سے راہ فرار پر مجبور ہوا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان خالی خولی ایٹمی سائنسدان ہی نہیں تھے بلکہ ان کے خیالات اور نظریات بھی ’’ایٹم‘‘ سے بھی زیادہ طاقتور تھے، وہ اپریل 1936ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور پھر قیام پاکستان کے بعد 1952ء میں اپنے اہل و عیال سمیت ہجرت کرکے  پاکستان آگئے، انہوں نے انجینئرنگ کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی چلے گئے، پھر انہوں نے نیدر لینڈ کی یونیورسٹی سے بھی انجینئرنگ کی ڈگری 1967ء میں حاصل کی، انہوں نے بلجیئم کی ایک یونیورسٹی سے میٹالرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔1974ء میں بھارت نے جب راجستھان کے علاقے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کرکے ’’ہندو ایٹم بم‘‘ کا خوف پھیلانے کی کوشش کی تو تب ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ملاقات کرکے پاکستان میں ایٹم بم بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی چونکہ ایک محب وطن وزیراعظم تھے، اس لئے انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر  خانؒ کے ایٹم بم بنانے کے منصوبے کو نہ صرف یہ کہ سمجھا، جانا، پسند کیا بلکہ انہیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ کام کرنے کی بھی اجازت دے دی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ  ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ نے اپنی  ٹیم کے ساتھ رات دن محنت کرکے پاکستان کوایٹمی ملک بنا کر دنیا میں ہمیشہ کے لئے سربلند کر دیا، ایک طرف ان کا مخالف پرویز مشرف کہ جس نے نائن الیون کے بعد پاکستان کے ائیرپورٹس اورفصائیں امریکہ کو بیچ ڈالیں، چھ سو سے زائد مسلمان نوجوانوں کو امریکیوں کے ہاتھوں فی نفر 5ہزار ڈالر کے عوض فروخت کیا، تو دوسری طرف ڈاکٹرعبدالقدیر خانؒ کہ جنہوں نے اپنی معزز ٹیم کے ہمراہ’’پاکستان‘‘ کو ایٹمی قوت بنا کر ناقابل تسخیر بنا دیا، ڈاکٹرعبدالقدیر خانؒ انسان تھے یقینا ان سے غلطیاں بھی سرزدہوئی ہوں گی، لیکن نہ وہ لالچی تھے، نہ مفاد پرست تھے، نہ وہ کفریہ طاقتوں سے خوفزدہ ہوتے تھے، نہ وہ کرپٹ تھے نہ انہوں نے ملکی آئین کو کبھی پامال کیا، نہ وہ یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ تھے، وہ ایک سچے اور کھرے مسلمان اور اول و آخر پاکستانی کی حیثیت سے زندہ رہے۔
ان کوامریکہ کے حوالے کرنے کی کوشش کرنے والے رسواکن ڈکٹیٹر کو بھی پتہ چل چکا ہو گا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ کو رخصت کرنے کے لئے بارش کے باوجود ہزاروں پاکستانی والہانہ انداز میں ان کے جنازے کے اجتماع میں موجود تھے۔ اس نے سوچا تو ہوگا کہ کل جب ’’وہ‘‘ مرے گا تو اسے رخصت کرنے کے لئے کتنے ’’پاکستانی‘‘ موجود  ہوں گے؟ ممکن ہے کہ اسے توقع ہو کہ اس کا جنازہ پڑھانے کے لئے بھی ’’بش‘‘ کے کارندے امریکہ سے آئیں گے؟
ڈاکٹرعبدالقدیر خانؒ ایٹمی سائنسدان تو تھے ہی مگر ساتھ ہی وہ زبردست شاعر، نثر نگار اور ایک بڑے اخبار کے معروف کالم  نگار بھی تھے وہ اپنے کالموں کے ذریعے اسوئہ رسولﷺ اور محبت رسولﷺ کو عام کرتے رہے، وہ نہ لبرل تھے، نہ سیکولر شدت پسند، بلکہ وہ خالص مسلمان اور سچے عاشق رسولؐ تھے، وہ نہ صرف یہ کہ دینی مدارس کی تعلیم کو پسند کرتے تھے بلکہ علماء کرام اور مذہبی جماعتوں کا بے حد احترام بھی کرتے تھے، پس ثابت ہوا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ، کے بنیادی نعرے پر پاکستان کو قائم کرکے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو  ناقابل تسخیر  ایٹمی قوت بنا کر یہ بات ثابت کر دی کہ پاکستان کے قیام سے لے کر اسے ناقابل تسخیر قوت بنانے تک اصل کردار اسلام پسندوں کا ہے، قائداعظم محمد علی جناحؒ ہوں، علامہ اقبالؒ ہوں یا ڈاکٹرعبدالقدیر خانؒ یہ سب کے سب اسلام پسند تھے، شائد اسی لئے پاکستان کو اسلام کا  قلعہ بھی کہا جاتا ہے، سیکولر شدت پسند کہ جو ٹی وی چینلز کے ذریعے ملک میں فکری گمراہی پھیلاتے رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ کی علمی ثقاحت اور روشن کردار سے سبق حاصل کریں۔
ڈاکٹرعبدالقدیر خانؒ جرمنی، بلجیئم میں پڑھتے رہے، انہوں نے ’’سائنس‘‘ پڑھی ایٹمی سائنسدان بنے مگر اس کے باوجود وہ اپنے افکار و خیالات کے ذریعے اسلام اور قرآن کی محبت کو عام کرتے رہے، ایک وہ ڈاکٹر پرویز ھود بھائی ہیں کہ جن کی ’’فزکس‘‘ سنبھالے نہیں سنبھلتی، جو ملک و قوم کے  تحفظ کے لئے تو سوئی برابربھی کوئی نئی ایجاد سامنے نہ لاسکے، لیکن جب ان کی فکری گمراہی کا تعفن ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے سامنے آتا ہے تو ملک بھر میں اس کی بدبو پھیل جاتی ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ مرحوم ملک بھر میں فلاحی کاموں میں بھی بڑی سرگرمی سے حصہ لیتے رہے۔
غریب لوگوں کے کام آنا، ان کا طرہ امتیاز رہا، لاہور میں ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال کہ جہاں غریب اور نادار لوگوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے، صرف بیماریوں کی تشخیص نہیں، بلکہ ادویات بھی مفت دی جاتی ہیں، اس ہسپتال میں ایک ڈائیلسز سنٹر بھی ہے کہ جہاں غرباء اور ناداروں کے ٹیسٹ اور ڈائیلسز بھی فری کئے جاتے ہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیرسرپرستی ملک بھر میں سکولوں کا بھی ایک جال پھیلا ہوا ہے، مجھے اس موقع پر پھر پرویز مشرف کی یاد آئی کہ جس کی زیرسرپرستی یازیر سایہ آج ملک میں کوئی ایک بھی ایسا ادارہ، ہسپتال، سکول،کالج، یونیورسٹی، مسجد، مدرسہ یا یتیم خانہ کام نہیں کر رہا کہ جسے موصوف کا فلاحی کارنامہ یا فلاحی و رفاہی مشن قرار دیا جاسکے، پرویز مشرف کے پاس نہ دولت کی پہلے کمی تھی اور نہ ہی آج کمی ہے لیکن جس دولت کے حصول کی خاطر بے گناہ انسانوں کا لہو بھی شامل ہو جائے، وہ دولت نہ ملک و قوم کے کام آسکتی ہے اور نہ ہی فلاحی کاموں کے، آخر ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ میں کوئی کمال تو تھا کہ دس اکتوبر بروز اتوار کے دن شدید بارش، آندھی اور طوفان میں فیصل مسجد کے قریب و جوار کی سڑکیں بند ہونے کے باوجو د  ہزاروں مسلمان دیوانہ وار ان  کے نماز جنازہ میں پہنچے، ملک کے طول و عرض میں  نہ صرف یہ کہ ان کی غائبانہ نماز جنازہ  ادا کی گئی بلکہ مسلمان عوام اپنے جذبے کے تحت ان کے لئے قرآن خوانی کے پروگرام بھی کرتے رہے، قرآن خوانی اور دعائیہ تقاریب کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔
مجھے ڈاکٹرعبدالقدیر خانؒ کے متعدد کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا، ان کے کالم مصنوعی پن اور جھوٹ سے پاک ہوا کرتے تھے، سب سے بڑی بات کہ وہ خود ’’سائنس‘‘ کا عروج تھے، مگر وہ ’’سائنس‘‘ کو اسلام کے تابع سمجھتے تھے اور اپنے کالموں کے ذریعے پاکستان، نظریہ پاکستان اور دین اسلام کی حقانیت کی بات کرتے تھے، اللہ ان کی سئیات کو معاف فرما کر ان کی حسنات کو قبولیت کا شرف عطا فرمائے اور ان  پر قبر اور حشر کی منزلیں آسان فرمائے۔ (آمین) وماتوفیقی الاباللہ۔

بشکریہ روزنامہ اوصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے