تحریر:قاري عبدالستار سعید
امریکی جارحیت کی شکست کی گھڑیاں چل رہی ہیں ـ احباب کا اصرار بھی ہےاور خود اپنا دل بھی یہ کہتا ہے کہ ان تاریخی لمحات کو لفظ بہ لفظ محفوظ اور زیبِ قرطاس کیا جائےـ لیکن میں احساسات کے اس ہجوم کی زد میں ہوں جس نے میری تعبیر کی زبان اور قلم روک دئیے ہےـ اور دونوں گنگ ہوچکے ہیں ـ
سچی بات یہ ہےکہ میں تو اس شش وپنج میں مبتلا ہوں کہ کیا لکھوں اور کیا لکھ بھی سکتا ہوں؟ کہاں سے شروع کردوں اور کس بات پر ختم کردوں؟ کیونکہ گزشتہ بیس سالہ انقلاب میری ہم عمر نسل کی آنکھوں کے سامنے گزرچکی ہےـ جسے ہم نے روح اور بدن سے پوری طرح محسوس کرلیا ہےـ جس دن سے پوری دنیا جارج بش کی سربراہی میں ہمارے وطن پر حملہ آور ہوئی ـ بیسیوں انواع واقسام کی افواج کی چیخ وپکار سنائی دے رہی تھی ـ دنیا کے نشیب وفراز سے ہر گورا چٹا اور سیاہ فام وسفید فام اور طرح طرح کے مسلح اوباش ہمارے ملک کی گلیوں اور کوچوں میں دوڑنے لگےـ بارود کا طوفان اور منفی تبلیغات کی ایک سونامی چلی ـ اس وقت میرا ملک کفر زدہ دنیا کے بیچوں بیچ اس جزیرہ کی مانند رہ گیا تھا کہ جس پر جب طبیعت اس پر غصیلا ہو جائے تو ہر طرف سے خونخوار اور قہرآلود موجوں سے اسے گھیر لےـ
مگر اس جزیرے (افغانستان) کی پشت بہت مضبوط اور جڑیں بہت محکم تھیں ـ چہار اطراف سے اٹھی ہوئی خونخوار موجیں جو بہت ہی شور وغوغا کررہی تھی بہت مستی سے آگے بڑھ رہی تھیں مگر یہاں پہلے سے موجودہ ساحلی پتھروں نے ان سے ٹھکرانے کا ہنر آہستہ آہستہ سیکھ لیاـ یہ وہ مقابلہ تھا جو معاصر علم اور عقل کے قالب میں نہیں سماسکتا تھاـ جی ہاں! اس غیرمتوازن مقابلہ کی بنیاد صرف اور صرف ایمان ہی پر رکھی گئی تھی اور کچھ نہیں تھاـ
آج کی تازہ ترین خبر ہے کہ امریکی افواج اپنے اہم اوع آخری مرکز بگرام ائیربیس سے انخلاء کرگئی ہیں اور بہت جلد اپنا آخری سپاہی افغانستان سے نکال لے گاـ اس خبر کے پڑھنے کے بعد جب میں غیرارادی طور پر پیچھے کی جانب ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیتا ہوں ـ گزشتہ بیس سالہ جہاد کے نشیب وفراز پر دماغ کی شعاعیں چھوڑ دیتا ہوں تو ہر طرف سے جذبات،احساسات،غیرت وشہامت کا کارناموں، دردناک لمحات اور بہت سارے مختلف واقعات کا ایسا ہجوم سامنے آتا ہے جیسا تاریک رات میں ستاروں سے بھرے کہکشاں کا منظر ہوـ
کبھی اپنا دلعزیز ساتھی احمدشاہ مبارز شہید دل ودماغ میں آتا ہے جو جہاد کے ابتدائی سالوں میں خفیہ طور پر مقابلہ کرتے تھےـ ایک دن ان کے بڑے بھائی نے انہیں بٹھا کر سمجھانے کی غرض سے ایک مثال پیش کی ـ بڑے بھائی نے پوچھا: پیارے احمدشاہ! سامنے پہاڑ (کوہ سلیمان) نظر آرہا ہے؟ جواب میں احمدشاہ نے کہا جی محترم بھائی! دکھ رہا ہےـ
بھائی نے پوچھا کیسا لگ رہا ہے چھوٹا ہے یا بڑا؟
احمدشاہ گویا ہوئے کہ جی یہ تو بہت اونچا ہےـ بقولِ کسے یہ تو آسمان سے باتیں کررہا ہےـ
بھائی نے اب مقصد کی بات کرتے ہوئے کہا کہ اب اگر تم اس پہاڑ سے اپنا سر ٹھکرانے لگے ہو تو کیا خیال ہے پہاڑ کو کوئی نقصان پہنچے گا؟ یا الٹا اپنا ہی سر توڑوگے؟ ظاہر سی بات ہے احمدشاہ نے جوبا کہا کہ اپنا سر ہی ٹوٹے گاـ
اس پر بڑے بھائی نے کہا کہ میرے پیارے بھائی! مجھے آپ کی خفیہ کارروائیوں کا پتہ چل گیا ہے ـ اس لئے بھائی ہونے کے ناطے میں ہمدردانہ طور پر یہ ناصحانہ پیغام دے رہا یوں کہ امریکا اس پہاڑ جیسا عظیم بلا ہےـ تم جتنی دفعہ اس سے اپنا سر ٹھکراوگے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے الٹا اپنا سر ہی توڑوگےـ
میں جب آج تصور کرتا ہوں کہ بڑے بھائی کے آمرانہ پیغام کے بعد اس غیرتی طالب کا ردعمل کیا تھا؟ انہوں نے کیا جواب دیا ہوگا؟اس کے دل پر کیا گزرا ہوگا؟ اور عقل وعقیدے کے اس مشکل قضیہ کے حل کے لئے وہ کسی مناسب دلیل کے کئے کتنی جستجو کرچکا ہوگا؟ اس گہرے تصور اور یادوں کے اس تلاطم خیز سمندر میں میری سوچ مجھے احمدشاہ کے ایک رفیق جہاد شاہ فیصل کی جانب لے جاتی ہے ـ شاہ فیصل صوبہ پکتیا کے ایک مالدار گھرانے کے چشم وچراغ تھےـ جو پاکستان کے فیصل آباد شہر میں ہجرت کی زندگی گزارتے تھےـ وہ روزانہ ہرصبح کو پینٹ اور پتلون میں انگلش لینگویج اسکول جاتے تھےـ اور اس وقت دسویں جماعت میں زیرتعلیم تھےـ اس وقت اتفاقی طور پر انہیں نسیم حجازی کے ناول مطالعہ کے لئے میسر آ جاتے ہیں ـ یہ کتابیں اپنے قاری کے اندر اسلام اور امت کے درد کو پیدا کرتی ہیں اور انسان کے اندر جذبہ جہاد کو بیدار کرتی ہیں ـ مگر اس وقت شاہ فیصل کے لئے مشکل یہ تھی کہ ایک طرف ان کا گھرانہ جہاد سے یکسر نابلد تھاـ دوسری طرف انہیں کسی ایسے شخص سے کوئی رابطہ اور تعلق بھی نہیں تھا جو اسے رزم گاہ تک پہنچائےـ پھر انہوں نے خود کبھی افغانستان دیکھا نہیں تھاـ ساتھ میں وہ جانے کے لئے بھاری بھرکم خرچے سے بھی عاجز تھےـ اس کا حل شاہ فیصل نے یہ نکالا کہ جو پیسے گھر سے اسے اسکول آنے جانے کے کرایہ اور اسکول میں کھانے پینے کے لئے ملتے تھے اسی میں بچت شروع کردی ـ شاہ فیصل مہینوں مہینوں اسکول پیدل جاتے تھےـ وہاں بھی کھانے پینے سے گریزاں رہتے تھے تاکہ جہاد کے عظیم سفر کے لئے زادِ راہ تیار کرسکےـ بالآخر شاہ فیصل جہاد کی نیت سے افغانستان کی راہ لیتے ہیں ـ اور عملی طور پر جہاد میں حصہ دار بنتے ہیں ـ شاہ فیصل کا عقیدہ اتنا صاف اور مضبوط تھا کہ ایک دن دشمن کے چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے دیگر ساتھی اصرار کرتے ہیں کہ احتیاط کے پیش نظر دشمن کے سامنے آنے کی بجائے ہمیں طویل راستہ اختیار کرلینا چاہیےـ مگر شاہ فیصل اڑجاتے ہیں کہ تم آو! میں نے حدیث شریف میں ایک ایسی دعا پڑھی ہے جسے دشمن پر چھو کرنے سے دشمن کی بصارت زائل ہوجاتی ہےـ تو ہم بھی وہ دعا پڑھ کر آگے کی جانب ہولیتے ہیں ـ اسکول سے تعلق رکھنے والے شاہ فیصل اپنی منزل مقصود کی تلاش میں بوجھل سینہ کے ساتھ پکتیا،قندہار،ارزگان اور دیگر شہروں میں پڑاو ڈالتے رہے ـ مختلف محاذوں میں گھومتے رہے اور بالآخر اپنے رب کی لقاء کے لئے ہندوکش پہاڑ کے اس پار صوبہ بغلان گئے اور وہیں جامِ شہادت نوش فرماگئےـ
تاثرات کے کہکشاں کا ہر کنارہ ایسے ہی نوادر سے لبریز ہےـ مطلب یہ کہ بگرام ائیربیس سے امریکی افواج کا انخلاء کوئی مفت انکشاف اور معمولی بات نہیں ہےـ اس خبر کے پیچھے ایک نسل کی قربانیوں کی وہ عظیم داستاں مضمر ہے جس کے لکھنے سے میرے قلم کی نوک عذر ہی پیش کرسکتی ہےـ
بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو دیکھے تو جاسکتے ہیں محسوس بھی کئے جاسکتے ہیں مگر ان کی تعبیر ممکن نہیں ہوتی ہےـ میں شہید عکرمہ(فرضی نام) کے خشک ہونٹوں،اڑتے رنگ، لبریز آنکھوں اور خوف ورجاء کی حالت کو قلم کی نوک پر کیسے لاسکتا ہوں؟ جو جہاد کے ابتدائی سالوں میں جرمِ جہاد کی بنیاد پر اپنے بھائیوں،والدین اور اقرباء واعزہ سے دربدر کرلئے گئے تھےـبڑے عرصہ سے اپنے گھر نہیں گئے تھےـ ایک دن اتفاقا ایک پتلی گلی میں والد سے سامنا ہواـ ایک طرف اس کے دل میں نسبی قرابت اور ہمدردی کا احساس اس کے دل میں موجزن تھا تو دوسری جانب والد سے خوف بسیرا کئے ہوئے تھاـ اب دو شاہراہوں کے بیچ وہ کچھ دیر ساکت کھڑے تھے مگر بالآخر والد سے منہ موڑ کر دوسری طرف کو ہولئے اور فراق کا یہ زخم تا دمِ شہادت اپنے سینہ میں لئے پھرتے تھےـ
میں اس معصوم طالب کی حالت کی تصویر کشی کس طرح کرسکتا ہوں جس کا گھر دشمن کے کسی چیک پوسٹ کے قریب تھاـ جس کی وجہ سے وہ گھر جانے سے محروم تھاـ پھر ایک وقت جب وہ دوسرے مجاہدین کے ساتھ ایک گھر میں صبح کا ناشتہ کرنے گئےـ ناشتہ کرنے کے بعد ان کے دوسرے ساتھی گھر سے نکلتے ہیں تو میزبان اسے روک دیتا ہے اور تھوڑی دیر ٹھرنے کا کہتا ہےـوہ اپنے ساتھیوں کو رخصت دے کر اکیلا وہیں رہ جاتا ہےـ تھوڑی دیر بعد بیٹھک میں ایک خاتون داخل ہوتی ہے جس سے وہ مجاہد کچھ پریشان سا ہوجاتا ہے کہ خدایا یہ کیا ہوگیا؟ مگر جب وہ خاتون اپنے چہرے سے حجاب اٹھاتی ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ خاتون اس مجاہد کی سگی بہن ہے جو اسی میزبان کے گھر میں بیاہ ہوئی ہے مگر اسے پتہ نہیں ـ بہن اور بھائی آہوں،سسکیوں اور گراتے آنسوں کے ساتھ ایک دوسرے کو محبت وعقیدت سے گلے ملتے ہیں ـ
یہ صرف میرے رب کو ہی علم ہے کہ اس عصر کے مجاہدین نے اللہ کی رسی کو مضبوط تھامنے کے لئے سب کچھ کیسے بھلادئیے؟ یہاں تک کہ ان انسانی رشتوں اور محبتوں، اور ان رشتوں کو پالنے کے لئے طبعی اور فطری خصوصیتوں کو بھی کس طرح پس پشت ڈالا جو انسان کی خلقت میں جڑ دی گئی ہیں اور انہیں بھلانا انسانی بس سے باہر ہوتا ہےـ
میرا قلم شہید قاری نصیر اور شہید قاری نعیم کی اس قربانی کی تفسیر سے عاجز ہے جنھوں نے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے اسلحہ تیار کرنے کی خاطر اپنی ذاتی جاگیر اور انگور کا باغ فروخت کرلیاـ اور انہی پیسوں سے امریکی افواج کو قتل کرنے کے لئے مجاہدین کو اسلحہ خرید کر دیا تھاـ
صوبہ قندز کے لئے امارتِ اسلامیہ کے گورنر شہید ملاعبدالسلام کے ایک ساتھی نے ایک دفعہ کہا:ایک دن ہم بارودی مواد تیار کرنے کے لئے ہم زہریلا پوٹاشیم کوٹ رہے تھےـ کوئی چیز بچھانے کے لئے تھی نہیں تو شہید ملاعبدالسلام نے اپنے گھر کی دسترخوان باہر لائی اور اس پر ہم نے وہ زہریلا پوٹاشیم کوٹ دئیےـ میزائل کے موجد شہید حافظ صاحب کی تو عام عادت یہ تھی کہ میزائیل اپنی بیگم صاحبہ اور بچوں کی معاونت سے تیار کرتے تھےـ اس طرح اپنی جان اور اولاد کی قربانی پیش کرنا ایمان اور عزمِ مصمم کی وہ اعلی سطح ہے جس تک پہنچنے سے اور قارئین تک حکایت پہنچانے سے میرا قلم عاجز ہےـ
اس لئے میرا قلم مخلصانہ طور پر اعتراف کرتا ہے کہ مجھے معاف کردو! میں معذور ہوں اور یہ پہلی دفعہ احساس ہورہا ہے کہ میں زبوں حال ہوگیا ہوں:
فرهاد را چو بر رخ شیرین نظر فتاد
دودش به سر درآمد و از پای درفتاد
مجنون ز جام طلعت لیلی چو مست شد
فارغ ز مادر و پدر و سیم و زر فتاد
زین گونه صد هزار کس از پیر و از جوان
مست از شراب عشق چو من بی‌خبر فتاد
سعدی ز خلق چند نهان راز دل کنی
چون ماجرای عشق تو یک یک به درفتاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے