تحریر:سید عبدالرزاق
20 جون کو افغان میڈیا نے ایک رپورٹ نشر کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان حکومت کے سقوط کے بعد پہلی دفعہ ریکارڈ سطح پر طالبان نے ایک ہی دن میں اٹھارہ اضلاع پر قبضہ کرلیا ہےـ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
۔۱- ضلع لولاش صوبہ فاریاب
۔۲-ضلع چہار بولک صوبہ بلخ
۔۳-ضلع درہ صوف صوبہ سمنگان
۔۴-ضلع ہزارسموج صوبہ تخار
۔۵-ضلع نمک آب صوبہ تخار
۔۶-ضلع خروار صوبہ لوگر
۔۷-ضلع ینگی قلعہ صوبہ لوگر
۔۸-ضلع خواجہ غار صوبہ تخار
۔۹-ضلع چال صوبہ تخار
۔۱۰-ضلع دشت قلعہ صوبہ تخار
۔۱۱-ضلع درقد صوبہ تخار
۔۱۲-ضلع مینجکگ صوبہ جوزجان
۔۱۳-ضلع خانقاہ صوبہ جوزجان
۔۱۴-ضلع فیض آباد صوبہ جوزجان
۔۱۵-ضلع خواجہ بہاؤ الدین صوبہ تخار
۔۱۶-ضلع دشتِ آرچی قندز
۔۱۷-ضلع خاشرود صوبہ نیمروز
۔۱۸-ضلع قلعہ زال صوبہ قندز
افغان میڈیا کی اسی رپورٹ میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک مہینے میں عید کے بعد سے اب تک سو سے زائد اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہےـ جو افغانستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں ـ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی افغان اور امریکی میڈیا اس بات کا اعتراف کررہا تھا کہ طالبان کا افغانستان کے آدھے سے زیادہ حصہ پر کنٹرول قائم ہےـ
اس بڑی مہم کے اندر ایک بات تو یہ بہت زیادہ اہم ہے کہ خاص طور پر ایک دن میں فتح ہونے والے اضلاع تقریبا سب کے سب ان صوبوں میں واقع ہیں جہاں پشتون قوم اقلیت میں ہے یا زیادہ سے زیادہ دوسری قوموں کے ساتھ برابر اور یکساں ہےـ یہ وہی علاقے ہیں جن کی نسبت شمال کی طرف کرکے کہا جاتا ہے کہ ان پر شمالی اتحاد کا قبضہ ہے اور وہی یہاں کے قائد اور ہیرو ہیں ـ ساتھ ہی آج کل یہ شور بھی کیا جاتا ہے کہ ان علاقوں کے باسی طالبان کو قبول نہیں کرتےـ ان کی قیادت بارہا طالبان کے خلاف ہتھیار بھی اٹھانے کی دھمکی دے چکی ہےـ بلکہ بعض دفعہ کچھ نمائش کرکے جتانے کی کوشش یہ کی ہے کہ ہم بھی خطرہ بن سکتے ہیں ـ
مگر امارتِ اسلامیہ کی یہ فتوحات اور وہ بھی صرف ایک دن کی اور علاقے بھی ان لوگوں کے جن کو طالبان کے لئے بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے بہت ساری مشتبہ باتوں کی وضاحت کرتی ہیں اور جہاں جہاں کوئی ابہام اٹھایا جارہا ہے اس کا ازالہ کرتی ہیں ـ ایک اہم بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ امارتِ اسلامیہ جیسا کہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے صرف پشتون قوم اور زبان تک منحصر نہیں بلکہ یہ پورے افغان عوام کی نمائندہ اور افغانستان کی حریت کی علمبردار وہ ملک گیر تحریک اور نظام ہے جس کی پشت پر ازبک،تاجک،ہزارہ،پشتون اور افغانستان میں بسنے والی تمام اقوام ہردم کھڑی ہیں ـ یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول وعرض میں امارتِ اسلامیہ کی سپاہ مسلسل آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور ہر جگہ بجائے مزاحمت کے پرتپاک عوامی استقبال کا سامنا کرتی ہےـ ہرجگہ،ہر قوم وزبان سے تعلق رکھنے والے نہ صرف یہ کہ ان کی آمد کا انتظار کررہے ہوتے ہیں بلکہ ان کے شانہ بشانہ ہوکر قدم قدم پر ہرکارروائی میں ساتھ بھی ہوتے ہیں ـ ورنہ تو پروپیگنڈے کے مطابق تو طالبان کی تعداد چند سو ہے پھر وہ ایک ہی دن میں اٹھارہ اضلاع پر اس قلیل تعداد کے باوجود قابو کیسے پاسکتے ہیں؟ درحقیقت یہ رنگ ونسل اور لسانی تعصبات سے پاک وہ عوامی حمایت ہی ہے جو تقدیر بدلنے میں کافی ہوتی ہےـ
دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ میڈیا، کابل انتظامیہ اور بیرونی میڈیا میں آئے روز یہ جو خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اگر طالبان برسرِ اقتدار آگئے تو فلاں فلاں ان کی مخالفت میں کھڑے ہونگے جو افرادی قوت سے بھی مالامال ہیں ـ بیرونی پشت پناہی سے بھی سرفراز ہیں اور پرانے جہادی کمانڈر بھی رہ چکے ہیں جس کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ان کی محبت جاگزیں ہےـ اور پھر فلاں فلاں کی نشاندہی انہی لوگوں سے کی جاتی ہے جو ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کو طالبان نے ایک دن میں اٹھارہ جیسی کثیر تعداد میں ضلعی ہیڈکوارٹر قابو کرلئےـ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پروپیگنڈا محض پروپیگنڈا ہی ہےـ حقائق سے صرف نظر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ورنہ تو ایسا کوئی امکان نہیں ہے کہ طالبان کی کوئی مزاحمت ہوـ جن لوگوں کا صبح وشام چرچا کیا جاتا ہے وہ تو بیرونی سرپرستی اور سابقہ جہاد کے بڑے بڑے نام بغل میں دبائے یہ سب کچھ تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں مگر ان سے کچھ بن نہیں پڑتاـ کیونکہ انہیں یقین ہوچلا ہے کہ یہ عوامی اور قومی فیصلے ہیں جنھیں قوم کی حقیقی نمائندہ جماعت امارتِ اسلامیہ اپنی محبوب قوم کی ہم آہنگی میں نافذ کرتی ہے اور عوامی طاقت بیرونی سرپرستی سے دبائی جاسکتی ہے اور نہ ہی بڑے بڑے نام اور القاب کے اپنانے سےـ
یہاں ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ سو سے زائد اضلاع جو فتح ہوئے ہیں ان سب میں جنگ سے زیادہ پر امن طریقہ سے کابل انتظامیہ کے اہلکاروں نے سرنڈر کرکے تمام مراکز حوالہ کئے ہیں ـ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ ان ساری کارروائیوں اور سو سے زائد اضلاع کی فتح میں اتنی کشت وخون نہیں ہوئی ہے جتنی کابل انتظامیہ اور امریکا ونیٹو کی ایک سفاکانہ بمباری میں ہوتی ہے تو بے جا نہ ہوگاـ اس کا اعتراف خود کابل انتظامیہ کی قیادت نے بھی کیا ہے اور وہ اپنی سبکی چھپانے کے لئے یہ کہتی ہے کہ ہم نے تکنیکی پسپائی اختیار کی ہےـ درحقیقت کابل انتظامیہ کے اہلکار ایک طرف اپنے بڑوں کی خود غرضی، انا پرستی اور اپنی ذات کے حق میں سخت جفا دیکھ رہے ہیں ـ دوسری جانب انہیں یہ یقین ہوگیا ہے کہ بیرونی سرپرستی اب ختم ہوگئی ہے جو ان کی قوت کی کل کائنات تھی ـ تیسری جانب وہ امارتِ اسلامیہ کی شفقت اور مہربانی بھی دیکھ رہے ہیں کہ بیس سال سے زائد غلامی میں رہنے کے باوجود امارتِ اسلامیہ کے جانباز اور سرفروش مجاہدین انہیں اپنے بھائی سمجھ رہے ہیں ـ اور انہیں عملی میدان میں بھائیوں جیسا پیار دے رہے ہیں ـ تب ہی وہ بے جا قربانی کا بکرا بننے کی بجائے سرنڈر کررہے ہیں اور بخوشی مراکز حوالہ کررہے ہیں ـ امارتِ اسلامیہ کی یہ رحمدلانہ روش اور کابل انتظامیہ کا روزانہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں سرنڈر ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا کے انخلاء کے بعد اگر کوئی خانہ جنگی کی کوشش کرے گا بھی تو اسے کامیابی نہیں ہوگی اور اس کے مفاد کے لئے کوئی غیور اور ذی عقل افغان قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا اگرچہ وہ بیس سال غلامی میں ہی کیوں نہ رہے ہو؟
اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑی بات یہ ہے کہ امارتِ اسلامیہ کا جس جگہ کنٹرول ہوجاتا ہے اور وہ جگہ فتح ہوجاتی ہے تو اکثر دیکھا یہ جاتا ہے کہ وہاں کے تمام مقامی باشندے بڑے جوش وخروش سے امارتِ اسلامیہ کا استقبال کرتے ہیں ـ اور ان کے آنے پر دل کی گہرائیوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں ـ ہرسو طالبان کی گیت ہی گیت گائی جاتی ہےـ گویا وہ بیس سال سے طالبان کی آمد کے منتظر تھےـ گویا کیا؟ حقیقت یہی ہے کہ جارحیت کے مظالم کی چکی میں جو پس رہے تھے وہ آزادی اور حریت کے منتظر کیسے نہیں ہونگے؟ جو ویڈیوز آرہی ہیں اور ان میں مقامی لوگوں سے تاثرات لئے جاتے ہیں ان سے ان کی خوشی چھلک رہی ہوتی ہے ـ دیکھنے والوں کے لئے قابل دید ہوتی ہےـ
یہ ساری صورتحال بڑے واضح انداز سے غمازی کرتی ہے کہ افغانستان کے عوام دل وجان سے امارتِ اسلامیہ کے لئے چشم براہ ہیں ـ اور جو راہ سے پھسل کر بیس سال غلامی کی دلدل میں پھنسے تھے وہ بھی اس عادلانہ نظام کی کشش سے انحراف نہین کرسکےـ اور خانہ جنگی وغیرہ کے جو ڈھونگ رچائے جاتے ہیں یہ سارا پسِ منظر اسے غلط ثابت کرتا ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ مستقبل میں ایک پر امن،مستحکم، مضبوط اور اسلامی نظام سے بہرہ ور افغانستان تشکیل ہونے کو ہےـ جو کوئی بھی اس صورتحال سے انحراف کرے گا گویا وہ عوامی طاقت سے ٹکر لے رہا ہے اور عوامی طاقت سے ٹکر لینے والا دوسروں کی بجائے اپنا تماشا کر بیٹھتا ہےـ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے