افغان مصیبت زدہ قوم گذشتہ چار دہائیوں سے ایک خودمختار، مستحکم اور پرامن افغانستان کے مقصد کی خاطر  بدامنی اور جنگ کے شعلوں میں جل رہی ہے، امارت اسلامیہ افغانستان موجودہ المیہ اور اس کے  تمام اسباب کو ختم کرنا چاہتی ہے ، تاکہ افغان ملت اپنے آزاد ملک میں متحد  اسلامی نظام کے پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں۔ اسی مقصد تک پہنچنے کی خاطر ریاستہائے متحدہ امریکہ کیساتھ 29 فروری 2020ء کو ایک معاہدہ طے ہوا۔

امارت اسلامیہ افغانستان اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے درمیان دوحہ معاہدے نے فریقین کے مابین بہترین مواقع کے لیے راہ ہموار کردی،جس کے نتیجے میں امارت اسلامیہ افغانستان کے پانچ ہزار قیدی اور کابل انتظامیہ کے ایک ہزار قیدی رہا، بین الافغان مذاکرت شروع اور بیرونی فوجوں کی اکثریت ملک سے نکل چکی ہے اور بقیہ انخلا کی حالت میں ہے۔

اگرچہ معاہدے پر  عمل درآمد کے دوران کچھ مسائل ہوتے ہیں اور ہیں، مگر افغانستان میں امن کے قیام کے لیےمعاہدہ واحد موقع ہے، جو بقیہ قیدیوں کی رہائی، بلیک لسٹ اور انعامات کے خاتمے سمیت اس کے بقیہ حصے پر عمل درآمد سے افغانستان کے المیہ کو ختم کرنے کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔

چونکہ اب افغانستان سے تمام بیرونی فوجیں انخلا کی حالت میں ہے، آزادی کے بعد یہاں ایسے نظام کے قیام کے لیے کام کرنا چاہیے،جس میں افغان قوم  سکون اور خوشحالی سے لطف اندوز ہوسکے اور یہ اس وقت ممکن ہے،جب  نظام افغان قوم کے مطالبات اور امنگوں کے مطابق قائم ہوجائے۔

حقیقی اسلامی نظام افغانوں کے سب مسائل کے حل کے کا سب سے بہترین وسیلہ اور واحد مطالبہ ہے، جس پر قوم کے تمام طبقات متحد ہیں اور اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ ایک طاقتور اسلامی نظام، جو بیرونی جارحیت اور دخل اندازی سے افغانستان کا دفاع کرسکے اور دنیا کو بھی  باامن افغانستان ہونے کی تسلی دیں۔

افغانستان میں اسلامی نظام کا استحکام پھر بھی افغانوں کے اندرونی قربانی،معافی اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے  پر منحصر ہے، اس لیے کہ تفرق، جنگ اور مقابلے کی صورت میں مثبت پیشرفت ناممکن ہے۔

جتنا ایک مستحکم اسلامی نظام کا استحکام افغانوں کے لیے ضروری ہے ، اتنا ہی دنیا کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ سمیت دنیا کے لیے ایک بےاختیار اور بدعنوان نظام سے طاقتور، متحداور کرپشن سے پاک افغانستان منافع بخش ہے۔

ہم بیرونی فوجوں کے انخلا کے بعد قائم ہونے والے نظام کی نوعیت کے متعلق افغانوں اور عالمی برادری کے پاس موجودہ سوالات کو سمجھتے ہیں۔ان سوالات کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا تعلق بین الافغان مذاکرات سے  ہیں۔ ہمیں قبل از وقت تصوراتی اندازوں سے مذاکرات کے موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

بین الافغان مذاکرات میں ہماری شرکت اور اس سے حمایت اس کی نشانی ہے کہ ہم افہام و تفہیم کے ذریعے مشکل کے حل پر یقین رکھتے ہیں۔

بین الاقوامی برادری سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ افغانوں کو اپنے ملک اور قوم کی قسمت کا فیصلہ خود کرنے پر چھوڑ دیاجائے،کیونکہ افغانوں کو ان حکومتوں سے بہت بری یادیں وابستہ ہیں، جو بیرون سے ان پر مسلط کی گئی تھیں۔

ہم ان کوششوں کی ستائش اور استقبال کرتے ہیں ، جو حقیقی طور پر ملک کے مسائل، ناامنی اور بے نظمی کو ختم کرسکے اور جو بھی اس راہ میں امداد اور تعاون کرسکتا ہے، انہیں افغان معاشرے کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

ہم دوسری جماعتوں کے ساتھ باہمی احترام کے ماحول میں آگے بڑھنے اور ایک ایسے نئے سیاسی نظام پر اتفاق کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جس میں تمام افغانوں کی  آواز سنی جاتی ہو۔

آئندہ افغانستان میں ہم اسلام   کے مقدس  دین کی بنیادوں اور افغان معاشرے کی ترجیحی روایات کی روشنی میں اپنے ملک کے تمام مرد اور خواتین شہریوں کے تمام حقوق مثلا آزادی رائے، تعلیم وتربیت،روزگار وغیرہ  اپنے آپ کو پابند سمجھتے ہیں۔چونکہ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی اور افغانی معاشرہ ہے، تو خواتین کی تعلیم اور روزگار کےلیے مناسب ماحول اور سہولیات فراہم کی جائیگی،تاکہ وہ اپنے امور کو تسلی سے آگے بڑھا دے۔

امارت اسلامیہ پرعزم ہے کہ ہموطنوں کو اپنے ملک اور قوم کی خدمت کے لیے مناسب مواقع مہیا کریں، سب کو ملک کی تعمیرنو اور قوم کی خدمت کے لیے متحد ہوجانا چاہیے،  ہمارےملک  اور قوم کو قومی تاجروں، نوجوانوں اور ماہرین کی اشد ضرورت ہے۔  نوجوان دراصل ہر معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ہم نوجوان طبقہ کو بتلاتے  ہیں  کہ تم اپنے ملک اور قوم کی خدمت کے ذمہ دار ہو اور امارت اسلامیہ تمہارے لیے اس موقع کو مہیا کریگا۔اپنے کنبے اور بچوں سے دور  رزق کے حصول کی خاطر بیرون ملک جانے کے بجائے اپنے ہی خاندان کیساتھ اپنے ملک اور قوم کی خدمت کرنے سے اپنے اور  آئندہ نسل  کے لیے قابل فخر اور راحت بخش زندگی کی ضمانت کے لیے خدمت کریں۔

آئندہ نظام میں اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا،اس حوالے سے کسی کو تشویش نہیں کرنا چاہیے۔

افغانستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بین الاقوامی برادری کا ایک اہم رکن ہے۔  ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان کے بیرونی دنیا  کیساتھ مثبت اور نتیجہ خیز تعلقات ہو۔  افغانوں کو آئندہ افغانستان کی تعمیرنو میں دنیا سے سالم امداد کی ضرورت ہے اور اس کا خیرمقدم کرتا ہے۔

بیرونی جارحیت کے مقابلے میں افغان عوام کا جہاد اور جدوجہد تمام دینی اور وضع کردہ قوانین کی رو سے افغان قوم کا مسلم اور ثابت حق تھا اور ہے۔

بین الاقوامی معاشرے کے ہم آہنگی اور اس کے تعاون سے امارت اسلامیہ متبادل معیشت مہیا کرنے سے منشیات کی روک تھام اور منشیات کے عادی افراد کے علاج کے حوالے سے ضروری اقدامات کرنا چاہتی ہے،  بدقسمتی سے منشیات کے عادی افراد کی تعداد لاکھوں تک پہنچی ہے۔

امارت اسلامیہ عالمی برادری کو یقین دہانی کرواتی ہے کہ افغانستان میں تعینات بیرونی ممالک کے سفارت کار  اور فلاحی اداروں کے عملے کو امارت اسلامیہ کی جانب سے کوئی  خطرہ لاحق نہیں ہوگا، ہمارے ملک میں کافی عرصے سے فلاحی ادارے امارت اسلامیہ کی تعاون اور ہم آہنگی سے امور انجام دے رہے ہیں،   اب بھی اپنے فلاحی کاموں کو جاری رکھیں،  امارت اسلامیہ تعمیرنو کے امور کو انجام دینے کی خاطر انہیں محفوظ ماحول مہیا کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔

آخر میں ایک اہم نکتہ کی جانب اشارہ کرنا چاہتاہوں ، امارت اسلامیہ کسی کو بھی اجازت نہیں دیگی کہ افغان سرزمین کو کسی کی سلامتی کے خلاف استعمال کریں  اور کسی  کوبھی اجازت نہیں دی جائیگی کہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں۔  افغان عوام اپنے اسلامی اور قومی اقدار کی روشنی میں دنیا میں سربلند اور پرامن زندگی کے خواہاں ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ خطے اور دنیا کی سلامتی سب کی ذمہ داری بنتی ہے،  اسی بنیاد پر ہمسائیہ اور خطے کے ممالک سمیت کوئی بھی ایسے اشتعال انگیز اقدامات نہ کریں،جس سے نہ صرف اسے  بلکہ خطے اور دنیا  کو بھی غیرمستحکم کریں، اس حوالے سے خاص طور پر ہمسائیہ اور خطے کے ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے، کہ کسی کو بھی ایسے اعمال اور مواقع  فراہم نہ کریں، البتہ اگر ایسا قدم اٹھایا جاتا ہے ، وہ ایک بڑی تاریخی بدنامی اور غلطی ہوگی، جس سے  اقوام اور ممالک دہائیوں تک بدبختی کے آگ میں جلتے رہیں گے۔

ملا عبدالغنی برادر امارت اسلامیہ کے سیاسی نائب اور سیاسی دفتر کے سربراہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے